سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(27) زکاۃ کے مال سے مساجد میں بچوں کی تعلیم کے لیے کتبِ تفاسیر خریدنا

  • 17353
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 873

سوال

(27) زکاۃ کے مال سے مساجد میں بچوں کی تعلیم کے لیے کتبِ تفاسیر خریدنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے یہاں ایک مسجد ہے جس میں بچے ترجمہ قرآن مجید اوراسلام کے کی کتابیں وغیرہ پڑھتےہیں اورتفسیر  کی اشد ضرورت تھی لوگ غریب تھی کسی وجہ سے کوئی سبیل نہ تھی ۔کسی شخص نےزکوۃ کےمال سےتفسیر خازن لاکر مسجد میں رکھ میں دی اورمسجد کےنام پر وقف کردی اور کسی شخص کی ملک نہیں کی ۔اب بعض علماء جائز فرماتےہیں اورکہتےہیں کہ:للفقراء میں لام برائےانتقاع  کےہیے اورافی سبیل اللہ میں داخل ہے۔ دیکھو تفسیر خازن ومعالم تخت آیت بالاسورۃ توبہ۔ اوربعض بزرگ منع فرماتے ہیں ان کےنزدیک تملیک شرط ہے: آپ فیصلہ کن جواب عنایت فرمادیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میرے نزدیک ان لوگوں کاقول صحیح ہےجوزکوۃ کو روپئے سےکتاب خرید کر بصورت وقف مسجد میں رکھنےکومنع کرتےہیں۔زکوۃ ایک فریضہ الہی ہےجس کی ذمہ داری مالک نصاب پر عائد ہوتی ہےاور چونکہ وہ ایک عبادت ہےاس لئے مالک نصاب کومقرر قیود وشرائط کالحاظ کرتےہوئے مال کاایک حصہ معینہ اس کےمصارف میں اس طرح ادا کرناضروری ہےکہ بجز امتثال امر الہی اورکوئی غرض حصول نفع دنیوی نہ ہو۔

یہ معلوم ہےکہ غنی کےلئے (بجزان پانچ اغنیاء کے1۔عامل علی االصدقہ2۔مشتری مال زکوۃ از متصدق علیہ3۔ غاٰرم4۔غازی فی سبیل اللہ5۔ مہدق الیہ) زکوۃ لینا اور اس سے فائدہ اٹھانا حرام ہےاورزکوۃ سےخریدی ہوئی کتاب  سےمسجد میں رکھ دی کئی ہو ہر شخص غنی اورفقیر فائدہ اٹھانے کامجاز ہوگا۔غنی کو کیاخبر کہ یہ کتاب زکوۃ کےروپیہ کی ہے۔اس لئے مجھے اس سے فائدہ نہیں اٹھاناچاہئے۔پس ایسی صورت میں وہ ایسی چیز سےفائدہ اٹھائےگا جو اس کے لئے ناجائز ہےونیز وقف کرنے کے لئےبالاتفاق یہ شرط ہےکہ وہ چیز وقف کرنے والے کی ملکیت ہو’’وشرطه شرط سائر التبرعات أفادان الوقف لابدان يكون ملكاله وقت الوقف ملكاتا ما ولو بسبب فاسد وان يكون محجورا عن التصرف:

(شامی) اوریہ ظاہر ہےکہ زکوۃ کاملا  مالک نصاب کی ملکیت نہیں ہے اور نہ اس کو اس میں تصرف کرنے کاحق ہےاور فی سبیل اللہ سےجمہور علماء اسلام کےنزدیک مجاہدین فی سبیل اللہ مراد ہیں اور امام احمد کےنزدیک حاجی مراد ہے۔علامہ خازن نےپہلے قول کو صحیح بتایا ہےگ‎’’والقول هو الصحيح لاجماع الجمهور عليه)(خازن) پس سوال کی صورت کو فی سبیل اللہ میں داخل کرن  میرے نزدیک صحیح نہیں ہے واللہ اعلم بالصواب

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الزکاۃ

صفحہ نمبر 70

محدث فتویٰ

تبصرے