السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
س:(1)گنے اورپونڈے میں زکوۃ فرض ہے یا نہیں؟ بعض لوگ گنے کو خضروات میں داخل سمجھ کر کہتے ہیں کہ اس میں زکوۃ نہیں ہے۔اگر گنےمیں غلہ جات کی طرخ زکوۃ فرض ہےتو حدیث :ليس فى الخضراوات صدقة
(1)کی توجیہ اور اس کاصحیح مطلب کیا ہے؟
(2)گناکبھی شوگر فیکٹریوں کوفروخت کردیا جاتا ہےاورکبھی کسان خود وہی راب اورشکر تیار کرتے ہیں۔ ان دو نوں صورتوں میں زکوۃ کیوں کر نکالی جائے گی اوراس کانصاب کیا ہے؟ یعنی: گنے کی کس قدر پیداوار میں زکوۃ ضروری ہوگی؟
(3): گنےکئی قسم کےہوتے ہیں:اگر ایک شخص کےیہاں کئی قسم کےتیار ہوتےہیں تو کیا وہ سب قسموں کی ملاکر نصاب پورا کرے یا ہر ایک قسم کو الگ الگ نصاب کےبرابر ہوناچاہیے؟بینو توجروا
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ج:زمیں کی ہر پیداوار جوانسان کےکھانے کےکام آئے(قوت ہویا ادام) اورذخیرہ کی جاسکےاور ایک مدت تک باقی رہے سبزیوں ترکاریوں اور پھلوں کی طرح خراب نہ ہوجائے اس میں زکوۃ فرض ہے۔
(1)﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَنفِقوا مِن طَيِّبـٰتِ ما كَسَبتُم وَمِمّا أَخرَجنا لَكُم مِنَ الأَرضِ...﴿٢٦٧﴾... سورة البقرة
مسلمانو! اپنی حلال کمائیون اور ان چیزوں سےجن کوہم نےتمہارے فائدہ کے لئے زمین سےپیدا کیا ہے زکوۃدیا کرو۔
(2)فيما سقت السماء والعيون او كان عشر يا العشر وفيما سقى بالنضح نصف العشر(بخاري ابو داود ترمذى)
(3)ليس فى حب ولاتمر صدقة حتي يبلغ خمسة اوسق(مسلم نسائي(2)
(3)ليس فى الخضراوات صدقه(ترمذى دارقطنى وغيره(3)
آیت اور پہلی حدیث سے معلوم ہواکہ زمین کی تمام پیداوار میں زکوۃ فرض ہے۔دوسری حدیث سےمعلوم ہواکہ کجھور اورکسی غلہ میں جب تک پانچ وسق نہ ہو زکوۃ فرض نہیں ہے۔اسی حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ زکوۃ ان چیزوں میں ہےے جو کیلی ہوں یعنی جو معین پیمانے سےناپی جاسکیں۔
تیسری حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ سبزیوں ترکاریوں پھلوں یعنی ان چیزوں میں زکوۃ نہیں ہےجوذخیرہ نہ کی جاسکیں اور جلد خراب ہوجائیں۔
قال الحافظ: وهو دال على أن الزكوة إنما هي فى ما يكال ومما يدخر للاقتيات فى حال الاختيار وهذا قول مالك والشافعى(فتح الباري3/350)
گنے سے مقصود بالذات شکر راب گڑ کا تیار کرنا ہے اور ظاہر ہےکہ یہ چیزیں انسان کےکھانے کےکام آتی ہیں اور ذخیرہ کی جاتی ہیں۔ مدت تک خراب نہیں ہوتییں۔بعض مقامات میں ناب کر بھی فروخت کی جاتی ہیں اس لئے آیت اور تینوں حدیثوں کی روسے گنے میں بلاشک وشبہ زکوۃ فرض ہےاورحنفیہ کےنزدیک تو بلا ان قیود وشرائط کےزمین کی ہرپیداوار میں زکوۃ فرض ہے اس لئے گنے میں بھی زکوۃ ضروری ہوگی۔ويجب فى قصب السكر وقصب الذريرة لانه يطلب بهما نماء الارض فوجد شرط الوجوب فيجب(بدائع)
گنا خضراوات میں داخل نہیں جاسکتیں۔جیسے ککری خربوزہ تربوز شلجم چقندر آلو بیگن وغیرہ اور ہر قسم کے پھول اور ساگ پات اور امردور انار سیب وغیرہ وغیرہ۔ خضراورات میںن زکوۃ واجب نہ ہونے کی ایک دلیل بھی ہےجس کو ابو الولید االباجی مالکی نےذکر کیا ہے:
والدليل على مانقوله أن الخضر كانت بالمدينه فى زمن النبى ﷺبحيث لايخفى ذلك ولم ينقل أنه أمر باخراج شئي منهما ولافيها(منتقى)
(2)گنے کاوہی نصاب ہےجو ارو غلہ جات گیہوں جودھان مٹر چنے مسور ماش مونگ کا ہے۔خود دراب اور گڑ تیار کرنے کی صورت میں اگر گڑ اورراب کی مقدار پانچ وسق یعنی :تین سوصاع(تقریبا ساڑے اکیس من انگریزی سیر سے)یا اس سے زائد ہو تو زکوۃ میں مجموعی مقدار کابیسواں حصہ نکا لاجائے ۔ کیونکہ گنابالعموم بغیر آبپاشی کےتیار نہیں ہوتا۔شوگر فیکٹریوں کو فروخت کردینے کی صورت میں صحیح اندازہ کرنا چاہئے کہ کس قدر گنے میں کتناراب اورگڑ تیار ہوتاہے؟ اگر کسی کے یہاں پیداوار اس قدر ہوئی ہےکہ زکوۃ میں پانچ وسق یااس سے زیادہ راب تیار ہوگا گنا فروخت کردینےکی صورت میں اندازہ کئےہوئے راب کےبیسویں حصہ کی جس قدر قیمت ہوزکوۃ میں نکال دی جائے ۔
(3)گنے کی تمام قسمیں ایک سمجھی جائیں گی جیسے گیہوں کجھور کی مختلف قسمیں ایک شمار کی جاتی ہیں پس سب قسموں کوملا کر نصاب پورا کیا جائےگا ۔ہر ایک قسم کاعلیحدہ علیحدہ بقدر نصاب ہوناضروری ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب