السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(1)ایک فصل کی چند چیزیں مثلا کرنگی برہمی ڈئڑئی انجی وغیرہ ازقسم دھان ایک میں شمار ہوں گی اور ان سب کو ملا کر نصاب عشر پورا کیاجائے گا یاعلیحدہ علیحدہ کو پہونچیں تب عشر لازم ہوگا؟
(2)اسی طرح فصل ربیع کی چیزیں گیہوں جوچنا ارہر مٹر وغیرہ ملاکر نصاب کومکمل کرکے عشر لیا جائے گا یا ہر ایک چیز علیحدہ اپنے نصاب کوپہنچے تب عشر عائد ہوگا؟ جوکچھ فیصلہ ہومدلل ہو اوروجہ استدلال بھی ظاہر ہو۔
(3)بعض حضرات کہتے ہیں کہ: جوگیہوں کو ایک فصل کی ہیں مگر ان کے مجموعہ نصاب کااعتبار نہیں کیا جائےگا۔بلکہ علیحدہ علیحدہ جب نصاب کو پہونچے تب عشر لازم ہوگا۔کیوں کہ حضور ﷺ نے ان کے باوجود ایک فصل ہونے کےحنطہ وشعیر کاعلیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا ہے۔ کیا یہ استدلال صحیح ہے؟ کیا جس کےپاس حنطہ وشعیر مل کر نصاب پورا ہوتاہے وہ عشر سےبری ہوجائے گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1)دھان کی یہ قسمیں مثلا: کرنگی برہمی ڈنڑئی انجی وغیرہ ایک جنس کی چند انواع ہیں یعنی: جس طرح خرید وفروخت میں ایک قسم اور ایک جنس شمار ہوتی ہیں اور اس لئے ان میں ادھار اورکمی بیشی ممنوع ہے۔ اسی طرح زکوۃ اور عشر کےبارے میں بھی ایک جنس شمار کی جائیں گی اور ان سب کو ملا کر نصاب پورا کیاجائے گا۔ہر ایک کاعلیحدہ علیحدہ نصاب معتبر نہیں ہوگا۔کیونکہ یہ سب دھان کی قسم سے ہیں اگرچہ ان کےنام مختلف ہوگئے ہیں یہ ایسا ہی ہےجیسے کجھور کی مختلف قسمیں ہیں اور ان میں بعض اعلی درجہ کی ہیں اور بعض اوسط اور بعض ادنی درجہ کی اور ان کےنام بھی الگ اورحجم میں بھی اختلاف ہوتا ہے۔ اور ان کےکاٹے اورتوڑے جانے کے اوقات میں قدرے تقدم وتاخر بھی ہوتا ہے۔ لیکن باایں ہمہ وہ جنس واحد شمار ہوتی ہیں او رسب ملاکر نصاب پورا کیا جاتا ہےاور جس طر ح گیہوں کی مختلف قسمیں ہیں اور وہہ سب بیع میں جنس واحد شمار ہوتی ہیں اور زکوۃ میں بھی جنس واحد سمجھی جاتی ہیں۔اسی طرح ارز(دھان) کی تمام قسمیں جنس واحد شمار ہوں گی اگرچہ ان میں نام کےاعتبار سےاور وقت حصاد(کٹائی) کے اعتبار سےاختلاف ہے قال ابن حزم: وَأَمَّا أَصْنَافُ الْقَمْحِ فَيُضَمُّ بَعْضُهَا إلَى بَعْضٍ؛ وَكَذَلِكَ تُضَمُّ أَصْنَافُ الشَّعِيرِ بَعْضُهَا إلَى بَعْضٍ؛ وَكَذَلِكَ أَصْنَافُ التَّمْرِ بَعْضُهَا إلَى بَعْضٍ الْعَجْوَةُ، وَالْبَرْنِيُّ، وَالصَّيْحَانِيُّ وَسَائِرُ أَصْنَافِهِ.(المحلى 3/253)
علامہ ابن حزم نے کہا کہ گیہوں کےتمام اقسام ایک دوسرے کےساتھ ملائے جائیں گے اسی طرح جوکے سارے اقسام اورکجھور کی کل قسمیں خواہ برنی ہویا عجوہ یا صیحانی(یہ سب کجھور کی قسمیں ہیں)
وقال ابن قدامه: وَلَا خِلَافَ بَيْنَهُمْ، فِي أَنَّ أَنْوَاعَ الْأَجْنَاسِ يُضَمُّ بَعْضُهَا إلَى بَعْضٍ فِي إكْمَالِ النِّصَابِ.(المغنى 4/204) وَيُضَمُّ زَرْعُ الْعَامِ الْوَاحِدِ بَعْضُهُ إلَى بَعْضٍ فِي تَكْمِيلِ النِّصَابِ، سَوَاءٌ اتَّفَقَ وَقْتُ زَرْعِهِ وَإِدْرَاكِهِ، أَوْ اخْتَلَفَ.الخ(المغنى4/207)
ابن قدامہ نےفرمایا ہےکہ: نصاب پورا کرنے کے لئے ہرہر جنس کی کل اقسام ایک ساتھ ملائے جائیں گے مثلا: گیہوں کےساتھ گیہوں کی کل قسمیں دھان کےساتھ دھان کی جملہ قسمیں کجھور کےساتھ تمام اقسام ملائے جائیں گے اس میں اختلاف نہیں ہے)۔
وقال الباحى: الحنة تجمع أنواعها كلها كما تجمع أنواع التمر فتجمع البيضاء إلى السمراء فاذا بلغت النصاب ففيها الزكوة وهذا لاخلاف فيه
(علامہ باحی نےفرمایاکہ: گیہوں کےتمام اقسام آپس میں ملائے جائیں گے جس طرح کجھور کی سارقسمیں ایک ساتھ محسوب ہوتی ہیں ۔ اس مجموعی شمار سے نصاب پورا ہوجائے توعشر لازم ہوتا ہے)۔
ج(2)گیہوں جوچنا ارہر مٹر مونگ ماش مسور سب کی سب الگ الگ جنس ہیں ۔ ان میں ہر ایک جنس کاالگ الگ نصاب معتبر ہوگا ایک کو دوسرے کےساتھ ملاکر نصاب پورا نہیں کریں گے۔
قال ابن حزم: ولايضم قمح إلى شعير ولاتمر اليهما وهو قول سفيان الثوري ومحمد بن الحسن والشافعي وأبي سليمان وأصحابنا(المحلى3/251)
وقال الموفق بن قدامة فى المقنع1/317(فقه الحنابله:ولايضم جنس إلى آخر فى تكميل النصاب وعنه(أي عن أحمد) أن الحبوب يضم بعضها ‘إلها بعض وعنه تضم الحنظة الى االشعير والقطنيات بعضها إلى بعض انتهى
وقال ابن اخيه أبو الفرج بن قدامة فى الشرح الكبير2/560:والاولى اصح إان شاء الله لانها أجناس جواز التفاضل فلم يضم بعضها إلى بعض كالثمار ثم رد على من قال يضم بعضهاكمالك وعكرمة وكذا عمه الموفق بن قدامة فى المغنى4/204
فَإِنَّهُمْ أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ الصِّنْفَ الْوَاحِدَ مِنَ الْحُبُوبِ وَالثَّمَرِ يُجْمَعُ جِيِّدُهُ إِلَى رَدِيئِهِ، وَتُؤْخَذُ الزَّكَاةُ عَنْ جَمِيعِهِ بِحَسَبِ قَدْرِ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا - أَعْنِي: مِنَ الْجَيِّدِ والرَّدِئِ -، فَإِنْ كَانَ الثَّمَرُ أَصْنَافًا أُخِذَ مِنْ وَسَطِهِ.
وَاخْتَلَفُوا فِي ضَمِّ الْقَطَانِيِّ بَعْضِهَا إِلَى بَعْضٍ، وَفِي ضَمِّ الْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرِ وَالسُّلْتِ فَقَالَ مَالِكٌ: الْقِطْنِيَّةُ كُلُّهَا صِنْفٌ وَاحِدٌ، الْحِنْطَةُ وَالشَّعِيرُ وَالسُّلْتُ أَيْضًا. وَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَأَبُو حَنِيفَةَ وَأَحْمَدُ وَجَمَاعَةٌ: الْقَطَانِيُّ كُلُّهَا أَصْنَافٌ كَثِيرَةٌ بِحَسَبِ أَسْمَائِهَا، وَلَا يُضَمُّ مِنْهَا شَيْءٌ إِلَى غَيْرِهِ فِي حِسَابِ النِّصَابِ.
وَكَذَلِكَ الشَّعِيرُ وَالسُّلْتُ وَالْحِنْطَةُ عِنْدَهُمْ أَصْنَافٌ ثَلَاثَةٌ لَا يُضَمُّ وَاحِدٌ مِنْهَا إِلَى الْآخَرِ لِتَكْمِيلِ النِّصَابِ.
وَسَبَبُ الْخِلَافِ: هَلِ الْمُرَاعَاةُ فِي الصِّنْفِ الْوَاحِدِ هُوَ اتِّفَاقُ الْمَنَافِعِ أَوِ اتِّفَاقُ الْأَسْمَاءِ؟ فَمَنْ قَالَ: اتِّفَاقُ الْأَسْمَاءِ، قَالَ: كُلَّمَا اخْتَلَفَتْ أَسْمَاؤُهَا فَهِيَ أَصْنَافٌ كَثِيرَةٌ، وَمَنْ قَالَ: اتِّفَاقُ الْمَنَافِعِ، قَالَ: كُلَّمَا اتَّفَقَتْ مَنَافِعُهَا فَهِيَ صِنْفٌ وَاحِدٌ وَإِنِ اخْتَلَفَتْ أَسْمَاؤُهَا.
فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا يَرُومُ قَاعِدَتَهُ بِاسْتِقْرَاءِ الشَّرْعِ - أَعْنِي: أَنَّ أَحَدَهُمَا يَحْتَجُّ لِمَذْهَبِهِ بِالْأَشْيَاءِ الَّتِي اعْتَبَرَ فِيهَا الشَّرْعُ الْأَسْمَاءَ، وَالْآخَرُ بِالْأَشْيَاءِ الَّتِي اعْتَبَرَ الشَّرْعُ فِيهَا الْمَنَافِعَ -، وَيُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ شَهَادَةُ الشَّرْعِ لِلْأَسْمَاءِ فِي الزَّكَاةِ أَكْثَرَ مِنْ شَهَادَتِهِ لِلْمَنَافِعِ، وَإِنْ كَانَ كِلَا الِاعْتِبَارَيْنِ مَوْجُودًا فِي الشَّرْعِ. وَاللَّهُ أَعْلَمُ
ابن حزم نے فرمایا ہے کہ: گیہوں جوکے ساتھ نہیں دیا جائے گا۔ اور نہ کجھور گیہوں ا ور جوکے ساتھ ملائی جائے گی۔ سفیان ثوری محمدبن حسن شافعی ابو سلیمان وغیرہ ہم کا یہی مذہب ہے۔اور موفق بن قدامۃ نےکتاب المقنع میں لکھا ہے کہ تکمیل نصاب کےلئے ایک جنس دوسری جنس کےساتھ ملائی جائے گی۔ اورامام احمد سےمنقول ہےکہ جنس غلہ ایک دوسرے کےساتھ ملائی جائے گی جیسے گیہوں اورجو آپس میں اس طرح کے دانے ملائے جائیں گے۔
لیکن ابو الفرج بن قدمہ نےکہا ہے کہ: پہلا ہی قول صحیح ہے۔یعنی مختلف اجناس ایک دوسرے کےساتھ نہیں ملائی جائیں گی۔
کیونکہ ان ہاتھوں ہاتھ زیادتی کمی کےساتھ تبادلہ جائز ہے اس لئے بعض دوسرے بعض کےساتھ ملائے جائیں گے۔ اس کے امام مالک اورعکرمہ وغیرہ جو ملانے کےقائل ہیں ان کر تردیک کی ہے اسی طر ح مورفق بن قدامہ نے کتاب المغنی میں تحریر کیا ہے۔
علامہ ابن رشد نےکہا ہےکہ: ایک صنف غلہ کےعمدہ اورناقص کل اقسام اورایک قسم کےپھل کی عمدہ اورردی کل قسمیں آپس میں ملائی کے اندر اختلاف ہےکہ گیہوں اورجو اور سلت (خاص قسم کاجو) ملائے جائیں گے یا نہیں؟ امام شافعی امام ابو حنیفہ امام احمد اورایک جماعت ائمہ کےنزدیک غلے اپنے ناموں کے لحاظ سے مختلف اقسام اجناس شمار ہوں گے او ر ان میں کوئی بھی دوسرے کےساتھ ضم نہ ہوگا جو گیہوں سلت (خاص قسم کاجو) یہ تینوں الگ الگ تین جنس ہیں اس لئے ایک دوسرے کےساتھ نہیں ملایا جائے گا۔اس باب میں ائمہ کےاندر جواختلاف ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض امامون نےاجناس کےلئے ان ناموں کےاتفاق کالحاظ کیا ہے یعنی:اگر اجناس کےنام الگ الگ ہیں تو ان کومختلف اجناس قراد دیتے ہیں۔ جو چنامٹر گیہوں مسور وغیرہ۔بنابریں ان کوآپس میں ایک دوسرے کےساتھ نہیں ملایا جائےگا۔(جیساکہ امام شافعی واحمد ابو حنیفہ وغیرہ کامذہب ہے) اور بعض اماموں نے اجناس کی منفعت کےاتحاد کااعتبار کیا ہےیعنی:اگر مختلف غلے منفعت میں متفق ہوں سب سے ایک طرح کا فائدہ اٹھایا جاتا ہو توناموں اجناس کی منفعت کےاتحاد کااعتبار کیاہےیعنی: اگر مختلف غلے منفعت میں متفق ہوں سب سے ایک طرح کافائدہ اٹھایا جاتا ہو توناموں کےاختلاف کےباوجود یہ غلے ایک جنس شمار کئےجائیں گے۔ اورایک کودوسرے کےساتھ ملایا جائے گاجیسے مٹر مسور ارہر ارد یہ سب مختلف الاسماء ہونےکےباوجومنفعت میں متحد ہیں۔لہذا ایک کو دوسرے سے ملایا جائے گا۔
شریعت میں بسا اوقات ناموں کےاتفاق کالحاظ کرکےاحکام صادر فرمائے گئے ہیں اورکبھی کبھی منافع کےبھی اتفاق کالحاظ رکھا گیا ہے۔ لیکن ناموں کےاتفاق کا اکثر وبیشتر لحاظ شرح میں ہوا ہے بالخصوص زکوۃ کےباب میں(انتہی)میرےنزدیک ابن حزم وامام شافعی وامام احمد کامذہب راجح اورقوی ہے۔
وقال الباحى: وَالْأَظْهَرُ عِنْدِي أَنْ يَكُونَ كُلُّ صِنْفٍ مِنْهَا صِنْفًا مُنْفَرِدًا لَا يُضَافُ إلَى غَيْرِهِ فِي الزَّكَاةِ وَالْبُيُوعِ؛ لِأَنَّنَا إنْ عَلَّلْنَا الْجِنْسَ بِانْفِصَالِ الْحُبُوبِ بَعْضِهَا مِنْ بَعْضٍ اطَّرَدَ ذَلِكَ فِيهَا وَانْعَكَسَ وَصَحَّ، وَإِنْ عَلَّلْنَا بِاخْتِلَافِ الصُّوَرِ وَالْمَنَافِعِ صَحَّ - وَاَللَّهُ أَعْلَمُ وَأَحْكَمُ -.(المنتقى شرح الموطا)
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: «لَا يَحِلُّ فِي الْبُرِّ وَالتَّمْرِ زَكَاةٌ حَتَّى يَبْلُغَ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ، وَلَا يَحِلُّ فِي الْوَرِقِ زَكَاةٌ حَتَّى يَبْلُغَ خَمْسَ أَوَاقِيَ وَلَا يَحِلُّ فِي الْإِبِلِ زَكَاةٌ حَتَّى تَبْلُغَ خَمْسَ ذَوْدٍ» .
فَنَفَى رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - الزَّكَاةَ عَمَّا لَمْ يَبْلُغْ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ مِنْ الْبُرِّ، فَبَطَل بِهَذَا إيجَابُ الزَّكَاةِ فِيهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ؛ مَجْمُوعًا إلَى شَعِيرٍ أَوْ غَيْرَ مَجْمُوعٍ.(المحلى:3/252)
ابو الوليدباجى نےکہا ہےکہ: میرے نزدیک ظاہر یہی ہےکہ ہرقسم کاغلہ اپنی جگہ پر مستقل ایک جنس ہے۔خریدو فروخت اورزکوۃ کےمعاملہ میں ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا کیونکہ شکل وصورت اورمنفعت کےلحاظ سےہرجنس دوسرے سے الگ ہے۔علامہ ابن حزم نےابو سعید خدری سےمرفوعا روایت کہ ہے کہ : گیہوں اورکجھور میں زکوۃ واجب نہیں ہوتی جب تک پانچ وسق (60صاع) کی مقدار کونہ پہنچ جائے۔ علامہ ابن حزم نےاس سے استدلال کیا ہےکہ انحضور ﷺ نےاس مقدار گیہوں سے زکوۃ کی نفی کردی ہے جوپانچ وسق کونہ پہونچے۔ لہذا گیہوں پانچ وسق سے کم ہو تو وسق سےکم ہے۔آنخضور ﷺ نےاس مقدار گیہوں سےزکوۃ کی نفی کردی ہے جو پانچ وسق کو نہ پہونچے ۔لہذا گیہوں پانچ وسق سے کم ہوتو زکوۃ نہ ہوگی۔اور اگر ملاکر مجموعی صورت میں پانچ وسق ہوجائے تو پھر بھی زکوۃ نہ ہوگی کیونکہ کہا جاسکتا ہے کہ گیہوں پانچ وسق سےکم ہے۔آنحضور ﷺ کی نفی زکوۃ کا کاحکم علی الانفراد گیہوں اور گیہوںوجوکی مجموعی حالت دونوں کوعام ہے۔
ج:(3)دعوی صحیح ہےلیکن استدلال مخدوش ہےکیوں کہ جن حدیثوں میں حنطہ وشعیر کا ایک ساتھ ذکر آیا ہے ان میں نصاب کابیان نہیں ہےاورجن میں نصاب کاذکر ہےان میں دونوں ایک ساتھ مذکور نہیں ہیں بلکہ صرف حنطہ کاذکر آیا ہے فافہم حنطہ وشعیر دونوں ملاکر نصاب نہیں پورا کیا جائےگا۔کماتقدم
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب