السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عشر کے متعلق آپ قرآن وحدیث سےتحریر فرمادیں۔ گاؤں والے پریشان ہیں کوئی ایسا نہیں جو حل کرسکے ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مولانا عبدالرحمن صاحب مبارکپوری یہاں آئے تھے تو موصوف کےدریافت کرنے پر بیسواں حصہ زکوۃ نکالنے کےلئے فرمایا تھا اب ہم میں بعض لوگ کہتےہیں دسواں دیا جائے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آں حضرت ﷺ نےجس طرح سونے چاندی اورمویشی کانصاب مقرر فرمایا ہے اورہر ایک میں بطور زکوۃ کے جتنا اورجیسا نکالنا جائز ہےاس کی بھی تعیین وتصریح فرمادی ہے اور اس کو ہمارےاختیار میں نہیں دیا کہ جتنا اورجیسا چاہیں نکالیں یا اپنی مرضی سے اس میں کمی بیشی کریں ۔اسی طرح زمین کی پیداور سے شرعی حق نکالنے کےلئے بھی نصاب بتلادیا ہے کہ جب تک کسی کے ہاں اتنی مقدار میں غلہ کی پیداورا نہ ہو تو نکالناواجب نہ ہوگا۔ ساتھ یہ بھی بتلادیا ہے کہ جب اتنا پیدا ہوتو کتنا نکالنا لازم ہوگا اورجتنا نکالنا لازم اورفرض ہےاتنا ہی نکالنا ہوگا۔ کمی وبیشی کاہمیں حق نہیں ہے۔
شریعت نےزمین کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے: بارانی اورچاہی اگر پیدوار بارش کےپانی سے ہو تو اس میں عشر دسواں حصہ زکوۃ ادا کرنا ہوگا۔اور اگر کنویں کےذریعہ آب پاشی سے پیدوار ہوتو اس میں سےنصف عشر بیسواں حصہ زکوۃ میں ادا کیا جاوے گا۔اس کے علاوہ شریعت نے بیج گوڑنا جوتنا نرانا آب پاشی کاٹنا اور ماش کرنا وغیرہ کااعتبار عشر یا نصف عشر مقرر کرنے میں نہیں کیا اگر پانی کےعلاوہ اورچیزوں کااعتبار ہوتا فرمادیا جاتا ۔اسلامی حکومت میں جوزمین خراجی ہوتی ہے۔ اس کواگر کوئی مسلمان خریدے یا وہ کافر مسلمان ہوجائے تو اس کومقرر خراج کےعلاوہ بارانی میں عشر اور چاہی میں نصف عشر ادا کرناواجب ہےپیداورا میں سے خراج وضع کرنے کے بعد عشریا نصف عشر نکالنے کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی خراج دینے کی وجہ سے دسویں یا بیسویں کے بجائے تیسواں یاچالیسواں نکالنے کی اجازت ہے۔ ٹھیک اسی طرح غیر مسلم حکومت میں مسلمان کاشتکاروں سےجوپوت مال گزرای لگان لیا جاتاہے۔ اس کااثر آں حضرت ﷺ کےمقرر کردہ عشر یانصف پر نہیں پڑے گا۔یعنی تو کل پیداورا سےلگان مال گزاری اورپوت وضع کرنے کےبعد عشر یانصف عشر نکالنے کی اجازت ہوگی اور نہ مال گزاری اورلگان کی وجہ سے بارانی زمین کی پیدوار سے دسواں کی بجائے بیسواں اورچاہی سےبیسواں کے بجائے تیسواں اورچالیسواں نکالنا جائز ہوگا۔آں حضرت ﷺ کوعلم غیب نہیں تھا لیکن اللہ تعالی توجانتا تھاکہ مسلمانوں پر غیر مسلم حکمران ہوں گے اوران پر طرح طرح کےٹیکس لگائیں گے۔ پھر کیوں نہ اپنے نبی کے ذریعہ ہم کو یہ بتادیا کہ پانی کےعلاوہ ایسے ٹیکسوں کابھی لحاظ واعتبار کرنا ہوگا۔وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا (64)
پانی پٹاکر غلہ پیدا کرنے کےمصارف ہر جگہ یکساں نہیں کہیں کم ہیں کہیں زیادہ۔آنحضرت ﷺ نےاس کمی بیشی کاکچھ اعتبار نہیں کیا کیوں کہ ان کا انضباط مشکل تھا۔ اس لئے مطلقا ہر حالت میں قاعدہ کلیہ طور بیسواں مقرر اور لازم کردیا ۔ جس میں اب ہم کو کمی وبیشی کرنے کاحق نہیں اور بارانی زمین کی پیداوار سےہرحال میں دسواں ہی نکالنا ہوگا۔حضرت حافظ عبداللہ صاحب غازی پوری نےاپنےمطبوعہ رسالہ میں اور ان کےشاگرد رشید اور (میرے استادشیخ) حضرت مولاناعبدالرحمن صاحب مبارکپوری نےبھی اپنےقلمب غیر مطبوعہ رسالہ میں یہی تحریر فرمایا ہے۔اور یہی حق ہے۔ (فتاوی علمائےاہل حدیث)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب