سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(07) گنا میں میں عشر کی فرضیت

  • 17333
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 982

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گنے اورپونڈے میں زکوۃ فرض ہے یا نہیں؟ بعض لوگ گنے کوخضراوات میں داخل  سمجھ کر کہتے ہیں کہ اس میں زکوۃ نہیں اگر گنےمیں غلہ جات کی طر ح زکوۃ فرض ہےتو حدیث ليس فى الخضروات صدقة کی توجیہ اور اس کاصحیح مطلب کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زمین کی ہر وہ پیدوار  جو انسان کے کھانے کے کام آئے (قوت ہوای ادام) اورذخیرہ کی جاسکے او را یک مدت تک باقی رہے سبزیوں اور ترکاریوں اورپھلوں کی طرح جلد خراب نہ ہوجائے اس میں زکوۃ فرض ہےدلائل حسب ذیل ہیں:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَنفِقوا مِن طَيِّبـٰتِ ما كَسَبتُم وَمِمّا أَخرَجنا لَكُم مِنَ الأَرضِ...﴿٢٦٧﴾... سورةالبقرة

اے مسلمانوں!اپنی حلال کمائیوں  اور ان چیزوں سے جن کوہم تمہارے فائدے کےلئے زمیں سے پیدا کیا ہے زکوۃ دیا کرو۔

(2) فيما سقت السماء والعيون أوكان عشريا: العشر وفيما سقى بالنضح: نصف العشر (بخارى ابوداو ترمذى)

(3)ليس فى حب ولاتمر صدقه حتى يبلغ خمسة أوسق(مسلم)

(4)ليس فى الخضراوات صدقة(ترمذى دارقطنى وغيره)

آیت اور پہلی حدیث سے معلوم ہواکہ زمین کی تما پیدوار میں زکوۃ فرض ہے۔ دوسری حدیث سےمعلوم ہواکہ کجھوریا  اور کسی غلہ میں جب تک پانچ وسق نہ ہو زکوۃ فرض نہیں ہےاس حدیث سےیہ بھی معلوم ہواکہ زکوۃ ان چیزوں میں سے ہے جو کیلی ہو یعنی جو معین پیمانہ سے ناپی جاسکیں۔تیسری حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ سبزیوں ترکاریوں پھلوں یعنی : ان چیزوں میں زکوۃ نہیں ہےجو ذخیرہ نہ کی جاسکیں اور خراب ہوجائیں۔

قال الحافظ: وهو دال على أن الزكوةة إنما هى فيما يكال ممال يدخر للإقتيات فى الاختيار وهذا قول مالك والشافعى(فتح البارى6/52)

چوں کہ گنے  سے مقصودبالذات شکر راب گڑکا تیار کرنا ہےاور ظاہر ہےکہ یہ چیزیں انسان کے کھانے کے کام آتی ہیں اور ذخیرہ کی جاتی ہیں مدت تک خراب نہیں ہوتیں اور بعض مقامات میں ناپ کر بھی فروخت کی جاتی ہیں۔ اس لئے آیت کریمہ اورتینوں حدیثوں کی روسے گنے میں بلاشک وشبہ زکوۃ فرض ہے اور حنفیہ کےنزدیک تو بلا ان قیود وشرائط کےزمین کی ہر پیداوار میں زکوۃ فرض ہے اس لئے گنے میں بھی زکوۃ ضروری ہوگی۔

ويجب فى قصب السكر وقصب الذريرة لانه يطلب بها نماء الارض فوجد شرط الوجوب فيجب(بدائع)

(2)گناخضراوات میں نہیں ہے کیونکہ خضروات سےبالاتفاق وہ سبزیاں ترکاریاں پھل مراد ہیں جوجلد خراب ہوکر ناقابل استعمال ہوجاتی ہیں اور ذخیرہ نہیں جاسکتیں جیسے ککری خربوزہ تربوز شلجم چقندر بیگن وغیرہ اورہرقسم کےپھول اور ساگ پات اور امردو انار سیب وغیرہ۔

تائیدات علماء کرام:

اس فتوی کےمطابق حضرت مولاناابوالقاسم صاحب سیف بنارسی(مرحوم) حضرت مولانا شرف الدین صاحب محدث دہلوی حضرت مولانا احمداللہ صاحب شیخ الحدیث جامعہ رحمانیہ کراچی نیز دیگر اکابر علماء کےفتاوی وتحریرات موجود ہیں امام شافعی نے بھی زمین کر ہر اس پیداوار میں عشر کاوجوب بتلایا ہے جس کو آدمی کاشت کرے او ر اس کاذخیرہ کرسکے چنانچہ امام بیہقی نےلکھا ہے:الصدقة فيما يزرعه الادميون ويبين ويدخر ويقتات دون ماتنبته من الخضر(بهيقي4/128)

اس عبارت سے ظاہر ہے کہ آدمی جن چیزوں کی کاشت کرے او ران کاذخیرہ بناسکے اس میں عشر واجب ہے۔البتہ خودروسبزیوں پر کچھ نہیں ہےجو زمین سے خود بخود اگ آتے ہیں جیسے زمین قند کھر گھاس چورائی اورکرمواوغیرہ کےساگ پات۔

تائید مزید

جناب مولانا حافظ عبداللہ صاحب روپڑی نےتنظیم اہل حدیث یکم دسمبر1923کےپرچہ میں بڑے شدومد سے گنامیں عشر واجب ہونے کےمسئلہ پر مکمل ومدلل فتوی شائع کیا ہے او راسی طرح مدرسہ رحمانیہ دہلی کےعلمی رسالہ محدث بابت ماہ مئی 1940 میں گنا میں وجوب عشر کےمتعلق بڑا جامع ومفصل فتوی موجود ہے اسی طرح اخبار اہل حدیث دہلی 1953کے مختلف پرچوں میں مولانا  عبدالرحمن مبارکپوری اور جناب مولانا عبدالجلیل صاحب سامرودی کےمابین ایک اچھا خاصہ مذاکرہ  علمیہ رہا جس میں مسلسل بحثوں کےبعد آخر مسئلہ حقہ یہی نکلا کہ عشر اشیاء اربعہ حنطہ شعیر تمر عنت قطعی واجب ہے چوں کہ گنا اسی قسم میں داخل ہےاو رشکر وراب وگڑکی صورت میں اس کا ذخیر کیا جاتاہے لہذا اس میں عشر نکالنا قطعا فرض ہے اہل حدیث دہلی یکم جنوری1954/15جنوری1954میں اس بحث کاخاتمہ ملاحظہ ہو۔

نوٹ :حجۃ الخلف زبدۃ السلف حضرت حافظ عبداللہ صاحب غازپوری نےبھی بڑے شدومد سے گنا میں عشر کو واجب بتلایاہے(کتاب الزکوۃ مؤلفہ حافظ عبداللہ صاحب غازپوری میں اس کی تفصیلات موجود ہیں)۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الزکاۃ

صفحہ نمبر 42

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ