السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گائیں اگر بغرض تجارت نہ ہوں بلکہ افزائش نسل کی غرض سے اپنے پاس بقدر نصاب موجود ہوں تو کیا ان میں زکوۃ ہوگی یا نہیں ؟ جب کہ ان کی گایوں کا کوئی بچہ فروخت نہ کیا جاتا ہو بلکہ ان کےبڑے او رتیار ہوجانے پر ان بل جوتنے کےکام میں لیا جاتا ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر یہ بقدر نصاب گائیں معلوفہ نہیں بلکہ سائمہ ہیں۔یعنی تقریبا پورا سال میدانوں میں چرنے پر گذارہ کرتی ہیں اور دودھ کھانے کے لئے نہیں رکھی گئی ہیں تو ان میں حولان حول کےبعد بلاشبہ زکوۃ کا ادا کرنافرض ہےخواہ زائد نصاب ان کےبچوں کو آپ فروخت کردیا کریں یا ہل جوتنے کے کام میں لایا کریں۔بقدر نصاب مویشیوں میں وجوب زکوۃ کے لئے حولان حول کےعلاوہ یہ بھی شرط ہے کہ وہ معلوفہ او رعوامل نہ ہوں سائمہ ہوں۔
علامہ شوکانی السیل الجرار میں اس مطلب کی احادیث ذکر کرکے فرماتے ہیں(هذا حاصل ما ورد في اعتبار السوم والانعام الثلاث لها حكم واحد في الزكاة فالوارد في بعضها يقوى الوارد في البعض الاخر ولا سيما مع اعتضاد ذلك بأن الاصل البراءة فلا ينقل عنها الا ناقل صحيح وقد ورد الناقل وهو ايجاب الزكاة في الانعام مقترنا بكونه في السائمة كما عرفت.
ولا يخفاك ان ظاهر أحاديث اعتبار الحول التي قدمنا ذكرها يدل على انه لا بد ان يحول عليها الحول سائمة وان سامت في بعض الحول وعلفت في بعضه فالظاهر عدم الوجوب
قلت اعتبر الحنفية والحنابلة السوم والرعى فى اكثر الحول والشافقية فى جمعية والتفصيل فى المغنى4/32فارجع عليه
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب