السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قال الحافظ فى الفتح 3/ 188 :’’ ومن الإعتذارات أيضا، أن ذلك خاص بالنجاشى،إلى قوله ......... واستند ،،
(1) معاويہ لیثی کےقصہ کوصحابہ کےتراجم کےسلسلہ میں حافظ نےکس کتا ب میں بیان کیا ہےاور وہ کیا ہے؟
(2) نیز جنازہ غائبابہ صحابہ سےبھی پڑھناثابت ہےیا نہیں ؟
(3) چند مثالیں ایسی تحریر فرمائیں جس سے پتہ چلے کہ کسی کام کوایک مرتبہ
حضور کےکرنے سے آپ کےساتھ اس کی تخصیص کاحکم نہیں لگایا جاسکتا،شریعت میں ایسے امور ہیں کہ حضور نےایک دفعہ صرف اس پرعمل کیا، مگروہ مسلمانوں میں معمول بہا ہیں ۔حافظ نے احتمال تخصیص کواٹھانے کےلیے جوباتیں بیان کی ہیں ان کےعلاوہ کوئی اورٹھوس چیز یاحوالے پیش ہونے چاہیں جس سے احناف کومجال انکار وانحراف نہ ہو۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
معاویہ بن معاویہ المزنی ۔ معاویہ بن معاویہ اللیثی ۔ معاویہ بن مقرن المزنی کےقصہ کوحافظ نے الإصابة فى تميز الصحابة 3 / 436 میں ذکرفرمایا ہے۔ چنانجہ معاویہ بن معایہ المزنی کےترجمہ میں لکھتےہیں :’’ وردت قصته من حديث أبى أمامة وأنس مسنده ، ومن طريق سعيد بن المسيب والحسن البصرى مرسلة، فأخرج الطبرانى ومحمد بن أيوب بن الضريس فى فضائل القرآن وسمويه فى فوائده ، وابن منده والبيهقى فى الدلائل ، كلهم من طريق محبوب بن هلال عن عطاء بن ميمونة عن انس بن مالك ، قال : نزل جبريل على النبى صلى الله عليه وسلم ، فقال : يامحمد مات معاوية بن معاوىة المزنى الخ (قال ) : ومحبوب،قال أبوحاتم : ليس بالمشهور، وذكره ابن حبان فى الثقات ، وأخرجه ابن سنجر فى مسنده ، وابن الأعرابى وابن عبدالبر ، و رويناه بعلو فى فوائد حاجب الطوسى، كلهم من طريق يزيدبن هارون ، انبأنا العلاء ابومحمد الثقفى سمعت أنس بن مالك يقول: غزونا مع النبى صلى الله عليه وسلم غزوة تبوك الخ (قال ) : والعلاء أبومحمدهو ابن زيدالثقفى واه، وأخطأ فى قوله الليثى ،وله طريق ثالثة عن أنس ، ذكرهاابن منده من رواية ابى عتاب فى الدلائل،عن يحى بن أبى محمد عنه ، قال: ورواه نوح بن عمروعن بقية عن محمد بن زيادة عن أبى أمامة نحوه ، (قال الحافظ ): و أخرجه أبو أحمد الحاكم فى فوائد ، والطبرانى فى مسندالشاميين ، والخلال فى فضائل قل هو الله أحد ، وابن عبدالبر جميعا من طريق نوح فذكره نحوه ، وقال ابن حبان فى ترجمة العلاء الثقفى من الضعفاء بعد أن ذكرله هذا لحديث: سرقة شيخ من أهل الشام ، فرواه عن بقية فذكره ، (قال الحافظ ): فما أدرى عنى نوحا أو غيره ، فإنه لم يذكر نوحا فى الضعفاء ، وأما طريق سعيد بن المسيت المرسلة ، فروينا ها فى فضائل القرآن لابن الضريس ، من طريق على بن يزيد بن جدعان عنه، وأما طريق الحسن البصرى ، فأخرجها البغوى وابن منده من طريق صدقة بن أبى سهل ، عن يونس بن عبيد عن الحسن عن معاوية بن معاوية المزنى ، أن رسو ل الله صلى الله عليه سلم كان غازيا بتبوك ، فذكرالحديث ، وهذا مرسل ، وليس المرا د بقوله ’ ’ عن ،، أداة الرواية ، فإنما تقديرالكلام ، ان الحسن أخبر عن قصة المزنى .،، انتهى .
یہ تمام روایتیں اس امر کےبیان میں متفق ہیں :’’ رفع له سريره حتى نظرإليه ،، اسی لیے میں نے متن حدیث نہیں ذکر کیا ۔صرف طرق اورسند سےمتعلق عبارات ذکرکرنےپراکتفا کیاہے، اس لیے کےبعد میں حافظ نےیہ لکھا ہے:’’ قا ل ابن عبدالبر:اسانيد هذالحديث ليست بالقوية، ولو أنها فى الأحكام لم يكن فى شى منها حجة ، ومعاوية بن مقرن المزنى معروف ، هو وأخوته وأما معاوية بن معاوية فلا أعرف ،،انتهى.قال الحافظ : ’’ قد يحتج به من يجيز الصلا ة على ا لغائب ، ويدفعه ماورد أنه رفعت الحجب حتى شهد جنازته ، فهذا يتعلق بالأحكام ،، انتهى. (فتح 3/ 436 ) .
(2)اور حافظ نے فتح الباری (3؍ 188 ) میں لکھا ہے:’’ وقد ذكرت فى ترجمته (أى ترجمة معاوية بن معا وية المزنى ) فى الصحابة ، أن خبره قوى بالنظر إلى مجموع طرقه ،، لیکن انہوں نے اصابہ میں تواس وعدہ کوپورا نہیں کیا ۔شاید صحابہ سےمتعلق کسی اورتصنیف میں ذکرکیا ہو۔
(3) جنازہ غائبانہ پڑھنا کسی صحابی سےمنقول نہیں ہے۔اسی بناء پرمولوی شاہ انورمرحوم لکھتےہیں :’’ إن كثيرا من المسلمين ماتوا فى دار غربة فى عهده صلى الله عليه وسلم ، فناسب أن تختم بعهدالنبى صلى الله عليه وسلم سيما إذا لم يجز عليها توارث الأمة.،،اس کا جواب ظاہر ہے۔صحابہ سےصراحتہً اور نصا منقول نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ انہوں نے غائبانہ جنازہ نہیں پڑھا۔
عدم نقل عدم وقوع کومستلزم نہیں ہے۔
حنفیہ اس کوآنحضرت ﷺ کےساتھ مخصوص کہتےہیں اورآپ کےبعد ناجائز ،لیکن کسی ایک صحابی سےبھی یہ منقول نہیں ہےکہ وہ اس کوآنحضرت ﷺکے ساتھ مخصو ص سمجھتےہوں اور آپ ﷺ کےبعد ناجائز کہتےہوں۔ صحابہ سےآنحضرتﷺ کےساتھ اس کی خصوصیت کامنقول نہ ہونا ، دلیل ہےاس بات کی کہ وہ بھی اس کےقائل تھے ۔
حافظ نےاس کوجمہور سلف کامذہب بتایا ہےجس میں صحابہ تابعین واتباع تابعین بھی داخل ہیں ۔ جت تمام جنابلہ وشوافع اس کی مشروعیت کےقائل ہیں : اور امام شافعی نےباقاعدہ اس پردلیل پیش کی ہےتوعدم جریان توارث کا دعویٰ غلط اورباطل ہے۔
(1) حنفیہ کےسب سےبڑی دلیل خصوصیت کی یہ ہے: ’’لم يصل على غائب غيرالنجاشى ، وقد مات من الصحابة خلق كثيروهم غائبون عنه ، وسمع بهم ، فلم يصل عليهم إلا غائبا واحدا ، روى أنه طويت له الأرض حتى حضره ، وهو معاوية بن معاوية المزنى ،، ( نصب الرايه 2/ 283 9 ).
نجاشی اورمعاویہ کےعلاوہ زیدبن حارثہ اورجعفر بن ابی طالب پرجنازہ غائبانہ پڑھنامنقول ہے۔چنانچہ ان دونوں کاواقعہ واقدی نےکتا ب المغازی میں بسند مرسل روایت کیا ہے(نصب الرایہ 2؍ 283 ) ان چار کےعلاوہ کسی اورصحابی پرجنازہ غائبانہ پڑھنا مروی نہیں ہے۔لیکن عدم ذکر ، عدم وقوع کومستلزم نہیں ۔ ان چاروں کاذکر اس واسطے مقبول ہےکہ ان کےواقعات اہم اوردوسروں سےممتاز تھے اورہمیشہ ایسا ہوتا ہےکہ اہم کوذکر کیا جاتاہےاورغیر اہم کونظر انداز کردیا جاتا ہے۔
دوسری دلیل خصوصیت کی : رفع حجاب وکشف سریروالی روایت ہے،لیکن یہ کسی معتبر سند سےثابت نہیں اور محض احتمال سےسنت رفع یاخاص نہیں ہوسکتی اوراگر ثابت ہوبھی تویہ روایت مأول ہے كما ذكر شيخنا فى شرح الترمذى 2/145فارجع اليه.
ونیز اگر کشف ورفع حجاب ہوابھی تھا توزیادہ سےزیادہ یہ ہوگا کہ آپ ﷺ نےحبشہ میں اس کی نعش دیکھتے ہوئےجنازہ ادا فرمایا۔ اس میں صورت میں بہت دورسےجنازہ پڑھنا لازم آئے گااور عندالحنفية لا يجوز الصلوة على الميت مع العبد وإن رأى .
تيسرى دلیل خصوصیت کی : یہ ہے:’’ لم يكن بالحبشة من يصلى عليه ، فتعينت الصلوة عله، وبهذا أخرج ابوداءد والخطابى والمحق المقبلى وابن تيمية ،، .
حافظ نے اس کاجواب :’’ هذا محتمل الا أنثى لم أقف فى ،، الخ (3/188) كركى ديا ہے۔ زرقانی مالکی بطور تعقب کہتےہیں :’’وهو مشترك الإلزام، فلم يرو فى شئ من الأخبار أنه صلى عليه أحد فى بلده ، كما جزم به ابوداؤد ومحله فى اتساع الحفظ معلوم ، ، انتهى كلام الزرقانى مختصرا (2/ 59 9 .
جواب الجواب بھی سن لیجئے : قال ابن قدامة:’’قلنا:ليس هذا مذهبكم ، فإنكم لا تجيزون الصلوة على الغريق ولا الأسيرو من مات بالبوادى ، وإن كان لم يصل عليه ......... ولأن هذا بعيد ، لأن النجاشى ملك الحبشة ، وقد اسلم وأظهر اسلامه ، فيبعد أن يكون لم يوافقه أحد عليه ،، (المغنى 3/ 443 ).
ونیز اصل وجودصلوۃ جنازہ علی المسلم ہےاوراصل پردلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ محتاج دلیل وہ امر ہےجوخلاف اصل ہو۔
چوتھی دلیل خصوصیت کی : ارادہ اشاعت موت نجاشی علی الاسلام واستئلاف قلوب ملوک مسلمین ہے ۔لیکن یہ محض ابداء حکمت ہےجو تخصیص کی دلیل نہیں بن سکتی لإن الخصوصية لا تثبت إلا بدليل ،والأصل عدم الخصوصية اصل باب یہ ہےکہ اصولی حیثیت سےآپ کاوہ فعل جوکسی قول کابیان نہ ہو، بلکہ آپ نےاس کوابتداء کیا ہواورآپ کےحق میں اس کامندوب یامباح ہوناواجب ہونامعلوم ہو، تو وقتیکہ آپ کےساتھ خاص ہونے کی دلیل نہ پائی جائے، آپ ﷺ کی امت اس فعل میں آپ کی طرح ہے، یعنی : وہ فعل آپ کی امت کےحق میں بھی واجب یامندوب یامباح ہے، اوراگرآپ کےحق میں اس فعل کی نوعیت وصفت معلوم نہ ہو، لیکن یہ معلوم ہوکہآپ نے اس کوبقصد قربت وطاعت انجام دیا ہے، تو اس میں حق یہ ہےکہ امت کےحق میں یہ فعل مندوب ہے۔-(اوراگر قصد قربت ظاہر نہ ہوتب بھی ہمارے حق میں وہ مندوب ہی ہے )۔
قال الشوکانی فى إرشاد الفحول ص: 43 : ’’ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ كَذَلِكَ( أى فعله المجرد لم يروبيانا )، بَلْ وَرَدَ ابْتِدَاءً، فَإِنْ عُلِمَتْ صِفَتُهُ فِي حَقِّهِ مِنْ وُجُوبٍ أَوْ نَدْبٍ أَوْ إِبَاحَةٍ فَاخْتَلَفُوا فِي ذَلِكَ عَلَى أَقْوَالٍ:
الْأَوَّلُ: أَنَّ أُمَّتَهُ مِثْلُهُ فِي ذَلِكَ الْفِعْلِ، إِلَّا أن يدل دليل على اخْتِصَاصُهُ "بِهِ"* وَهَذَا هُوَ الْحَقُّ. تم ذكر الاقوال الاخر، ثم قال :
وَإِنْ لَمْ تُعْلَمْ صِفَتُهُ فِي حَقِّهِ، وظهر فيه قصد القربة فاختلفوا فِيهِ عَلَى أَقْوَالٍ آخرهابالوقف، وقال بعد ذكره : وَعِنْدِي أَنَّهُ لَا مَعْنًى لِلْوَقْفِ فِي الْفِعْلِ الَّذِي قَدْ ظَهَرَ فِيهِ قُصْدُ الْقُرْبَةِ، فَإِنَّ قَصْدَ الْقُرْبَةِ يُخْرِجُهُ عَنِ الْإِبَاحَةِ إِلَى مَا فَوْقَهَا، وَالْمُتَيَقَّنُ مِمَّا هُوَ فَوْقَهَا النَّدْبُ،، وَأَمَّا إِذَا لَمْ يَظْهَرْ فِيهِ قَصْدُ الْقُرْبَةِ، بَلْ كَانَ مُجَرَّدًا مُطْلَقًا فَقَدِ اخْتَلَفُوا فِيهِ بِالنِّسْبَةِ إِلَيْنَا عَلَى أَقْوَالٍ:
الْقَوْلُ الثَّانِي: أَنَّهُ مَنْدُوبٌ
قَالَ الزَّرْكَشِيُّ فِي"الْبَحْرِ": وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْحَنَفِيَّةِ وَالْمُعْتَزِلَةِ وَنَقَلَهُ الْقَاضِي وَابْنُ الصَّبَّاغِ عَنِ الصَّيْرَفِيِّ وَالْقَفَّالِ الْكَبِيرِ، قَالَ الرُّويَانِيُّ5: هُوَ قَوْلُ الْأَكْثَرِينَ. وَقَالَ ابْنُ الْقُشَيْرِيِّ: فِي كَلَامِ الشَّافِعِيِّ مَا يَدُلُّ عَلَيْهِ،،.
وقا ل الشوكانى : هُوَ الْحَقُّ؛ لِأَنَّ فِعْلَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنْ لَمْ يَظْهَرْ فِيهِ قَصْدُ الْقُرْبَةِ فَهُوَ لَا بُدَّ أَنْ يَكُونَ لِقُرْبَةٍ، وَأَقَلُّ مَا يُتَقَرَّبُ بِهِ هُوَ الْمَنْدُوبُ، وَلَا دَلِيلَ يَدُلُّ عَلَى زِيَادَةٍ عَلَى النَّدْبِ، فَوَجَبَ الْقَوْلُ بِهِ وَلَا يَجُوزُ الْقَوْلُ بِأَنَّهُ يُفِيدُ الْإِبَاحَةَ فإن الإباحة الشَّيْءِ بِمَعْنَى اسْتِوَاءِ طَرَفَيْهِ مَوْجُودَةٌ قَبْلَ وُرُودِ الشَّرْعِ بِهِ. فَالْقَوْلُ بِهَا إِهْمَالٌ لِلْفِعْلِ الصَّادِرِ منه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَهُوَ تَفْرِيطٌ كَمَا أَنَّ حَمْلَ فِعْلِهِ المجرد على الوجوب إفراط الحق بين المقصر والغالي،، انتهى.
حنفیہ مجبور ہیں کہ صلوۃ علی النجاشی ی آنحضرت ﷺ کےساتھ مخصوص مانیں ۔کیونکہ ’’ لقد كان لكم في رسو ل الله اسوة حسنة ، ، (الاعراف : 21 ) اور’’ ماأرسلنامن رسول إلا ليطاع ،، (النساء : 24 ) وغيره آيات کے ذریعہ جمیع افعال نبویہ وغیرہ مخصوصہ میں اتباع واقتداء کاامر ثابت ہے، اورجنازہ غائبانہ بھی جنازہ علی الحاضر کی طرح فعل قربت ہے۔اس لیے اس کی مشروعیت سےانکا ر نہیں ہوسکتا فحملو ه على الاختصاص به عليه السلام من غير دليل معتبر.
تعجب ہےکہ جب آنحضرتﷺ نےاس اس فعل سےکہیں منع نہیں فرمایا ۔اورآپ ﷺ کایہ فعل کسی امر یانہی یادوسرے فعل کے معارض نہیں ہے، صرف تکرار یاکثرت منقول نہیں ہے، توبلادلیل وبلاثبوت کشف ورفع سریروالی حدیث کےاس کوخصوصیت پرمحمول کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی ۔ ونیز صلوۃ جنازہ جب محض دعا ہےاسی لیے تووہ سورہ فاتحہ پڑھنے کےقائل نہیں الامن حیث الدعا ء توپھر غائب کےحق میں دعا کرنے سےکیوں منع کیا جاتا ہے؟
(1) صلوۃ استسقاء باجماعت امام ابوحنیفہ کےنزدیک سنت تونہیں مگر جائز اورمباح ضرور ہے۔حالانکہ آپ سےصرف ایک دفعہ ثابت ہےاورصاحبین کےنزدیک توسنت ہے۔
(2) نکاح بحالت احرام عندالحنفیہ جائز ہےحالانکہ صرف ایک دفعہ آپ نےیہ فعل کیا ہے، اور یہ مناسک حج سےبھی نہیں کہ ’’ حذوا عنى مناسككم ،، میں داخل ہو، بلکہ اس کےساتھ دوسری مرفوع حدیث میں منع بھی ثابت ہے۔
(3) حج کےموقع پرحلق راس کےبعد صرف ایک دفعہ آپ ﷺ نے اپنے بال تقسیم فرمائے ۔اور کوئی دوسری نظیر نہیں پیش کی جاسکتی ، پس اس فعل بامر تقسیم سےآپ کےبعدامت کےکٹےہوئے بال کی طہارت پراستدلا صحیح نہیں ہونا چاہیے خصوصا جبکہ آپ کے فضلات عندالاحناف والشوافع وغیرھم طاہرہیں ۔
(4) مرض الموت میں صرف ایک دفعہ آپ ﷺ نےبیٹھ کرنماز ادا فرمائی اور آپ کے پیچھے صحابہ نے کھڑے ہوکرادا کی ، باوجود اس کےکہ یہ فعل :’’ إذا صلى جالسا فصلوا جلوسا ،، (البخارى كتاب الأذان باب إنما جعل الامام ليؤتم به 1/168 مسلم كتاب الصلاة باب الائتمام الماموم بالامام ( 414) 1/308 ) . کےخلاف ہے، اورمالکیہ اس کوبوجہ اپنے مذہب کےمخالف ہونے کےآپ کےساتھ مخصوص مانتےہیں ،لیکن حنفیہ اورشافعیہ اس کوحدیث مذکور قولی کاناسخ مانتےہیں بلکہ قادر علی القیام کاامام قاعدکےپیچھے کھڑا ہوناواجب قرار دیتےہیں ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب