سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(291) شریعت محمد میں غائبانہ نمازِ جنازہ کا حکم

  • 17313
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 664

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شریعت محمد میں غائبانہ نماز جنازہ کاکیاحکم ہے؟ چونکہ ابھی ما ہ فروری 1990 ء میں جھولا میدان میں ایک دینی جلسہ منقعد ہوا تھا جس میں ابوظبی کےایک مولانا  عبدالباری فتح اللہ تشریف لائے تھے اورانہوں نے نماز جنازہ غائبانہ پڑھنے کوناجائزقراردیا ہے اور چیلنچ کےساتھ دعوی کیا کہ کوئی ثابت نہیں کرسکتا ہے،جوحدیث ملتی ہےانتہائی درجہ کی ضعیف حدیث ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جنازہ غائبانہ پڑھنے کومطلقا ناجائز  کہنا اوردعوی کرنا کہ جنازہ غائبانہ کےثبوت میں جوحدیث بیان کی جاتی ہےوہ انتہائی درجہ کی ضعیف حدیث ہے۔ ہمارے نزدیک یہ دونوں باتیں بالکل غلط ہیں ۔ اہل حدیث کےنزدیک جنازہ غائبانہ پڑھنا  جائز اور درست ہےکیونکہ یہ صحیح حدیث سےثابت ہے۔اوریہی امام شافعی اوراحمد ﷭کا مذہب ہے۔لیکن بعض جگھ  اہل حدیثوں میں جنازہ غائبانہ پڑھنے کاآج کل جورواج ہوگیا ہےاوراس کی رسم پڑ گئی ہےیہاں تک کہ کوئی جمعہ جنازہ غائبانہ سےخالی نہیں جاتا ۔ یہ ہمارے نزدیک افراط اورغلو ہےاوراس کادستور بنالینا طریق نبوی وعمل صحابہ کےخلاف ہونے کی وجہ سے غلط کام ہے۔

حنفیہ اورمالکیہ جنازہ غائبانہ کےقائل  نہیں ہیں ۔اور اس بارے میں وارد شدہ متفق علیہ حدیث کی طرح  طرح کی تاویلیں کرتےہیں ۔ ان کےرد کےلیے ’’ عون المعبود شرح سنن ابی داؤد ،، ’’ مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ ،، ’’ المغنی لابن قدامہ ،، ملاحظہ فرمائیں ۔

ہمار ے نزدیک اعتدال کی را ہ  یہ ہےکہ علم وفضل ، جودوکرم ،تدین وتقوی وغیرہ میں کسی ممتاز شخص کی وفات کی یقینی خبرمل جائے تواس کا جنازہ غائبانہ پڑھ لیا جائے جیساکہ آنحضرت ﷺ نےمدینہ منورہ میں صحابہ کےساتھ ’’ اصحمہ نجاشی ،،شاہ حبشہ کاجنازہ غائبانہ پڑھا تھا۔  یہ واقعہ  تمام کتب حدیث و کتب سیرو تراجم میں بسند صحیح مروی ہے۔عہدنبوی میں جنازہ غائبانہ پڑھنے کادوسرا واقعہ حضرت معاویہ بن معاویہ کاہے جوبعض کتب حدیث وکتب سیروتراجم میں مذکورہے لیکن اس کےسب طرق روایت ضعیف ہیں ۔ ان دو واقعوں کےعلاوہ کوئی تیسرا واقعہ جنازہ غائبانہ پڑھنے کامنقول نہیں ہے،حالانکہ  مدینہ منورہ کےعلاوہ مختلف مقامات میں مسلمان موجود تھے اوران  کاانقال بھی ہوتاانتقال بھی ہوتا رہا ، یہ صورت حال اس بات کی علامت اوردلیل ہےکہ عہد نبوی وعہدصحابہ میں جنازہ غائبانہ پڑھنے کا دستور اور عا م رواج نہیں تھا ۔اس لیے ہمارےنزدیک اصحمہ نجاشی اور معاویہ بن معاویہ مزنی کےواقعوں کی بنا پرکبھی کبھار جنازہ غائبانہ پڑھ لیاجائے تویہ شرعا جائز کام ہوگا  اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔اس کوبدعت اورناجائزنہیں کہاجائے گا ۔ جوایسا کہتا ہےاور افراط اورغلو کامرتکب ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1۔کتاب الجنائز

صفحہ نمبر 452

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ