السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میت کوغسل دیتے وقت کس طرح رکھا جائے ؟ کیونکہ یہاں ایک فریق کہتاہےکہ :شمال جنوب کورکھناچاہیے جس طرح قبر میں لٹاتےہیں ۔
دوسرا فریق کہتاہےکہ : مشرق مغرب کی طرف رکھا جائے جس طرح بیمار اشارہ سےنماز پڑھتاہے۔
اول فریق کہتاہےکہ: مشرق مغرب میں رکھنا گناہ ہےکیونکہ جب تھوکنا اورپشت کرنا قبلہ کی طرف منع ہے تومیت کےپاؤں کیوں قبلہ کی طرف کئے جائیں ۔
دوسرا فریق کہتاہےکہ : فتاوی عالمگیری میں دونوں طرح جائز لکھا ہے جس طرح آسان ہو،کرلیا جائے ۔
اول فریق کہتا ہےکہ فتاویٰ عالمگیری کی حدیث جوقبلہ کی طرف میت کےپاؤں کرنےکےمتعلق لکھا ہے۔کیا واقعی ضعیف ہے؟اگر میت کومشرق مغرب میں رکھ کریعنی قبلہ کی طرف اس کےپاؤں کرکےغسل دیاجائے تومیت کےغسل دینے والے گناہ گارہوں گے؟ اس طرف عام طور پرمیت کوغسل مشرق ومغرب کرکےدیتے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب میت کوغسل دینے کےواسطے تخت یاچارپائی پرلٹائیں تو کس رخ پرلٹائیں اس بارے میں کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری ۔ علماء کی رائیں اس بارے میں مختلف ہیں بعض کہتےہیں : جیسے قبر میں لٹایا جاتا ہےاسی طرح غسل دینے کےوقت بھی لٹانا چاہیے۔اور بعض کہتےہیں کہ : اس طرح لٹایاجائے کہ پیر قبلہ کی طرف ہوں ۔
فقیہ سرخسی حنفی کہتےہیں : اصح یہ ہےکہ جس رخ الٹانے میں آسانی ہواسی رخ لٹائیں۔
فتاویٰ عالمگیری 1؍ 221 میں ہے:’’ وكيفية الوضع عند بعض أصحابنا الوضع طولا كما فى حالة المرض، اذا أراد الصلوة بإيماء ، ومنهم من اختار الوضع كما يوضع فى القبر ، والأصح أنه يوضع كما تيسر ، كذا فى الظهيرية،،انتهى۔
معلوم ہواکہ دونوں طر ح لٹاکر غسل دینا جائز ہے۔نہ مشرق مغرب رکھنے میں گناہ ہےنہ شمال جنوب لٹاکر غسل دینے میں کوئی حرج ۔ ہاں افضل میرے نزدیک یہی دوسری صورت ہے، نہ اس وجہ سےکہ قبلہ کی طرف پاؤں یاپشت کرنا منع ہےکیونکہ اس کی ممانعت کسی حدیث سےثابت نہیں ۔بلکہ اس لیے کہ ایسا کرنے میں بیماراورعاجزکےلیٹ کرنماز پڑھنے کی ہئیت اورقبر میں دفن کی حالت کےساتھ مشابہت ہوجاتی ہے۔ فتاویٰ عالمگیری حدیث کی کتا ب نہیں ہےحنفی مذہب کی فقہ کی کتا ب ہے۔جس میں حنفی علماء کےفتاویٰ درج ہیں ۔ بیمار آدمی کوجوبیٹھ کرنماز نہ ادا کرسکے حدیث کےمطابق شمال وجنوب دائیں پہلو پرلیٹ کرقبلہ روہوکرنما ز پڑھنی چاہیے .’’ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلاَةِ الْمَرِيضِ؟ فَقَالَ: صَلِّ قَائِمًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ (ترمذى ) قال شيخنا فى شرح الترمذى :’’ فِي حَدِيثِ عَلِيٍّ عِنْدَ الدَّارَقُطْنِيِّ عَلَى جَنْبِهِ الْأَيْمَنِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ بِوَجْهِهِ وَهُوَ حُجَّةٌ لِلْجُمْهُورِ فِي الِانْتِقَالِ مِنَ الْقُعُودِ إِلَى الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنْبِ وَعَنِ الْحَنَفِيَّةِ وَبَعْضِ الشَّافِعِيَّةِ يَسْتَلْقِي عَلَى ظَهْرِهِ وَيَجْعَلُ على رِجْلَيْهِ إِلَى الْقِبْلَةِ وَوَقَعَ فِي حَدِيثِ عَلِيٍّ أَنَّ حَالَةَ الِاسْتِلْقَاءِ تَكُونُ عِنْدَ الْعَجْزِ عَنْ حَالَةِ الِاضْطِجَاعِ ،، (تحفة الاحوذى 1/ 293 ) . –
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب