السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عیدین کی تکبیریں ہاتھ چھوڑ کر جس طرح شیعہ نماز پڑھتے ہیں کہنی چاہیں ۔یاہاتھ باندھ کرمع رفع یدین کےادا کرنی چاہیئں ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عیدین کی تکبیریں ہاتھ باندھےہوئےکہنی چاہیں ۔ان تکبیرات کےوقت ہاتھ نہیں چھوڑنا چاہیے ۔تکبیرتحریمہ کے بعد نماز میں اصل ہاتھ باندھنا ہے۔جیسا کہ پنجگانہ فرائض اورتمام نوافل میں احادیث صحیحہ سےثابت ہے۔
صلوۃ عیدین بھی شرعی نماز ہے۔ اس لیے اس میں بھی اسی اصل پرعمل ہوگا تاوقتیکہ اس اصل کےخلاف کسی معتبر حدیث سےثابت نہ ہوجائے اورکسی حدیث سےعام نمازوں کےخلاف عیدین میں تکبیر تحریمہ کےبعد تکبیرات زوائد کےوقت ہاتھ چھوڑنا ثابت نہیں ۔اس لیےاسی اصل پرعمل ہوناچاہیے ۔ تکبیرات زوائد ( جن کی تعداد تکبیرتحریمہ کےعلاوہ بارہ ہے) کےوقت رفع یدین کسی مرفوع حدیث سے صراحتہ ثابت نہیں ، ہاں حضرت عبداللہ بن عمر ہرتکبیر کےساتھ رفع یدین ثابت ہے۔ ( أخرجه ابن الأثرم كما فى المغنى لابن قدامة 3/ 273 ) اگرچہ حضرت ابن عمر کااپنا فعل ہے۔صاحب ہدایہ نےرفع یدین عندتکبیرات العیدین کےثبوت میں ایک حدیث پیش کی ہے۔ لیکن افسوس اس حدیث کےکسی طریق میں مثبت مدعاتکبیرات العیدین کالفظ موجود نہیں ہےچنانچہ علماء حنفیہ کوخود اس کااقرار ہے۔تعجب ہےان لوگوں پرجورکوع جاتے وقت اوررکوع سےسراٹھاتےوقت رفع یدین کی جو حسب تصریح حافظ عراقی پچاس صحابیوں سےمرفوعاً مروی ہے،جن میں حضرات عشرہ مبشرہ بھی ہیں اور جس پربجز اہل کوفہ کےتمام عالم اسلامی عمل کرتارہا،بلا دلیل منسوخ یامباح ورخصت اورخلاف اولیٰ ومرجوح ۔ اوررفع یدین نہ کرنے کی عزیمت واولی وراجح رکھتےہیں ۔اورعیدین میں رفع یدین کوجوکسی مرفوع حدیث سےثابت نہیں سنت کہتےہیں ۔ فيا للعجب وضيع الأدب . (محدث دہلی ج: 10ش : 2جمادی الاول1361ھ؍جون 1942ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب