السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صحابہ کرام نےجب فتوحات کیں اورغیر ممالک میں گئے توکیا یہ ثابت ہےکہ انہون نےغیر عربی زبان میں خطبہ دیا ہو، مع حوالہ اس کاجواب دیں،ہماری تائید میں کچھ دلائل بھی ذکر ہو تواورزیادہ مناسب ہے؟ (عبدالخالق رحمانی )
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلاشبہ کسی تاریخی یاحدیثی روایت سےیہ ثابت نہیں ہےکہ صحابہ کرام نےفتوحات ایرانی ومصری ورومی کےزمانہ میں ان ممالک کےاندر انہیں ملکوں کی مروج زبانوں میں جمعہ کاخطبہ دیا ہو۔لیکن یہ امر ......... مانعین خطبہ بزبان پچھم کومفید نہیں ،بچندوجوہ :
وجہ اول : عدم نقل ،عدم وقوع وعدم ثبوت کی مستلزم نہیں ،اورنہ اس کامقتضی ہے۔
وجہ ثانی : جس طرح غیرعربی میں جمعہ کاخطبہ دینامنقول نہیں ، اسی طرح عربی میں بھی منقول نہیں ، ومن ادعى ذلك فعليه البيان ودونه قلل الجبال خلاصہ یہ کہ دونوں مسکوت عنہ ہیں ۔
وجہ ثالث: امام ابوحنیفہ کےنزدیک نماز میں قراءۃ قرآن غیرعربی زبان میں بغیر عجز کے،یابصدق عجز جائز ہے۔ حالاں کہ یہ کسی حدیث سےثابت ہےاورنہ صحابی یابعی سےمنقول ہے۔ نہ عملاً نہ افتاء وقولاً ۔معلوم ہواکہ ہرچیز کےثبوت کے لیے نقل وذکر ضروری نہیں ہے۔
وجہ رابع : اگر ہرواقعہ کےلیے نصا قول نبی ﷺ یااثر صحابی ضروری ہے،توادلہ اربعہ سےقیاس کوخارج کردینا چاہیے اوراجتہاد واستنباط کادروازہ پہلے اورآئندہ ہمیشہ بندرہناچاہیے ۔اور اگر قیاس واجتہاد واستنباط دلیل شرعی ہے، تو خاص مسئلہ جمعہ میں کیوں نص نبوی یااثر صحابی کامطالبہ کیا جاتا ہے۔
وجہ خامس : خطبہ جمعہ ہرحدیث میں ’’ خطبہ ،، کااطلاق کیا گیا ہے کما سيأتى اورلغت میں ’’خطبہ ،، کہتے ہیں : تخاطب ومراجعت فی الکلام اوروعظ وپند کو(مفردات القرآن وغیرہ ) ، اوروعظ وپندبغیر سامعین کی زبان کےوعظ وپندنہیں ہے۔ لخلوه عن مقصوده،وهو الإفهام والتفهيم والتبليع والتنبيه والترغيب والترهيب .
وجہ سادس : حدیث مسلم میں ہے:’’ وکانت للنبی صلى الله عليه وسلم خطبتان يجلس بينهما، يقرأ القرآن ويذكرالناس ،، وفى رواية :’’ يعظم ،، معلو م هوا کہ خطبہ جمعہ میں آنحضرت ﷺ تذکیرووعظ کرتےتھے یعنی : خطبہ تذکیرووعظ تھا۔اورتذکیر ووعظ بغیر کی زبان ناممکن ہے۔
وجہ سابع : آنحضرت ﷺ نےسلیک غطفانی کوان کی ( سامع کی ) زبان میں تحیۃ المسجد پڑھنے کاحکم دیا ،جسے انہون نے سمجھا اورسمجھ کرحکم کی تعمیل کی ، اورآنحضرتﷺنےحضرت عثمان کوخطبہ جمعہ میں ترک تکبیر وترک غسل پرتنبیہ فرمائی،حضرت عثمان نےمعذرت کی ۔معلوم ہواکہ خطبہ جمعہ محض عبادت نہیں ہے ۔ نماز کی طرح جس میں تخاطب ومراجعت ممنوع ہے،پس ہرخطبہ جمعہ سامع کواس کی زبان میں تبلیغ وتنبیہ کرسکتا ہے،محض اس لیےکہ وہ خطیب ہے،اورسامع سامع ہےخواہ وہ عرب ہوں یاعجم ۔
وجہ ثامن : جب آنحضرت ﷺ سےسامع کی زبان میں تذکیر وتبلیغ وعظ ونصیحت خطبہ جمعہ میں ثابت ہے، اورخطیب نائب رسول اورمطیع رسول ہے، تو اس نائب کےلیے بحکم آیت﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الاحزاب : 21) خطبہ جمعہ میں تذکیر ووعظ بزبان سامعین جائز ہونا چاہیے کیوں کہ آنحضرتﷺکےساتھ اس تذکیرکااختصاص کسی دلیل سےثابت نہیں ۔
وجہ تاسع: آنحضرت ﷺ مبین قرآن تھے، اوریہ وظیفہ تبیین کسی حال اورکسی خطبہ کےساتھ مخصوص نہیں ہے۔ اورظاہر ہےکہ تبیین مستلزم افہام وتفہیم کےہے،پس اگر اس بیان سےفہم وتلقی حاصل نہ ہو، تو وہ بیان ، بیا نہیں ہے،علماء وخطباء وارث ونائب رسول ہیں، پس ان کاوظیفہ بھی ہرخطبہ میں قرآن کی تبیین وتشریح ہونا چاہیے۔ اوریہ تبیین تشریح بغیر مخاطب کی زبان کےناممکن ہے۔
وجہ عاشر: اہل قباء کامسجد نبوی میں جمعہ کےدن علی سبیل التناوب آکر خطبہ جمعہ محض تلقی احکام وتفقہ فی الدین ہی کےلیے توتھا ۔
معلوم ہواکہ خطبہ جمعہ میں حضوروشرکت تلقی واخذ احکام کےلیے ہے۔اوریہ عجم میں اسی وقت ممکن ہے جب خطبہ غیرعربی میں دیا جائے۔
وجہ حادی عشر: جمعہ کےخطبہ کےلیے کسی زبان (عربی ) کی خصوصیت نہیں من ادعى ذلك فعليه البيان ، امام ابوحنیفہ کی مرجوع عنہ روایت کےمطابق قراءۃ قرآن بزبان غیرعربی نماز میں بغیر عجز کےجائزہے۔ اوران کےشاگرد نوح بن ابی مریم (منکرالحدیث ، متروک الحدیث ، واضع احادیث فی فضائل القرآن ) کی روایت مرجوع الیھاکےمطابق صرف بصورت عجز جائز ہے۔ اوریہی حکم خطبہ جمعہ کابھی ہے(شامی1؍ 757 ، وہدایہ 1؍ 86 ، وتوضیح تلویح بحث تعریف قرآن )۔
معلوم ہواکہ امام صاحب نےنزدیک نماز کےلیے یاخطبہ کےلیے عربی زبان کی خصوصیت نہیں ہے۔ باقی رہایہ شبہ کہ اگرخطیب عربی زبا ن میں خطبہ سےعاجز ہوتوعربی میں کہہ سکتا ہے۔اس سے کہاں یہ ثابت ہواکہ قدرت کےوقت بھی عربی میں دےسکتا ہے۔
اس کاجواب یہ ہےکہ عجز عام ہے قول لذاته هويالغيره( عدم فہم سامعین)پس جیسے صورت اول میں عجز متحقق ہےاسی طرح صورت ثانی میں بھی ۔اس لیے دونوں صورت میں غیرعربی میں خطبہ جائز ہوگا ۔
وجہ ثانی عشر: آیت ’’ فاسعوا الی ذکراللہ ، ، (الجمہ :9 ) پس لفظ ’’ ذکر ،، سےمراد ذکرشرعی ہےجس کابیان آنحضرتﷺ نےاپنے فعل وعمل سےامت کےلیے کردیا ہے۔یعنی : ذکر سےمراد تذکیروتبلیغ ہےجوبغیر سامع کی زبان کے لغووکالعدم ہے۔پس خطبہ جمعہ نام رکھنا چند یادوایک عربی میں کلمہ ذکر الہی کا۔ فعل نبوی سےثابت شدہ تفسیر کے صریح خلاف ہے۔
وجہ ثالث عشر: عدم نقل خطبہ جمعہ بزبان غیرعربی ازصحابہ قرینہ ودلیل تعیین عربی اس لیے بھی نہیں ہےکہ احتمال قوی ہے اس امر کاکہ مقاصد خطبہ جمعہ وفعل نبوی(وعظ وتذکیر ، افہام وتفہیم ) کی وجہ سے صحابہ بعدفتوحات علماء عجم کوخطیب جمعہ مقرر کردیتے رہے ہوں ، تاکہ وہ اپنی زبان میں سامعین کوخوب تبلیغ وتذکیرکرسکیں۔والإحتمال كاف فى إبطال هذا الدليل (أى عدم النقل)،وهذا القدريكفى لمن تأمل فى هذه المسئلة بإمعان النظر،ولوأمعنت النظروتأملت بالتأمل الصادق ياأخى ، لاتضح لك الحق وانكشف الأمر فلا حاجة إلىّ
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب