سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(249)اذان جمعہ سے متعلق استفتاء اور اس کا جواب

  • 17271
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3245

سوال

(249)اذان جمعہ سے متعلق استفتاء اور اس کا جواب

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

كيافرماتےہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جواذان جمعہ کےدن خطبہ  کےوقت دی جاتی ہےاس کااصلی مقام  کہاں ہے؟ اورکس جگہ  سےدینی جاہیے؟ہمارےملک ہندوستان میں جہاں تک دیکھا گیا ہے خطیب کےسامنےمنبرکےپاس ہوتی ہےمگر اس زمانہ میں بعض جگہ مسجد کےباہر دی جاتی ہے،اعلی حضرت احمدرضا بریلوی  ’’ تحفہ حنفیہ ،، جلد 8 ماہ محرم 1322ھ مطبوعہ پٹنہ میں لکھتےہیں کہ : الحمدللہ یہاں اس سنت کااحیا ء  رب عز وجل نےاس فقیر کےہاتھوں پرکیا،میرے یہاں موذنوں کومسجد میں اذان دینےکی ممانعت ہے۔ جمعہ کی اذان ثانی بحمداللہ تعالیٰ منبر کےسامنے دروازہ مسجد پرہوتی ہے۔،،

ایک شخص نےفاضل بریلوی سےسوال کیا کہ جن مسجدوں میں منبر ایسے بنےہیں کہ ان کےسامنے دیوار ہےاگر موذن باہر اذان دےگا توخطیب کاسامنا ہوگا وہاں کیا کرنا چاہیے ؟ اس کےجواب میں مولانا  نےکہا کہ : لکڑی کامنبر بنائیں کہ سنت مصطفیٰﷺہے۔اسے گوشہ محراب میں رکھیں اس سے محاذات ہوجائے گی اگر صحن مسجد میں بلند دیوار ہےتو اسے قیام موذن کےلائق تراش کرباہر کی جانب جالی یاکواڑلگائیں،، ۔ ’’ فتاوی رضویہ ،، جلد سوم ص : 493 ۔

محدث  کچھوچھوں صاحب اپنے رسالہ میں لکھتےہیں کہ : ’’ بعض فقہاء کےنزدیک مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے،، ۔پھر چند سطر کےبعد ہی لکھتےہیں کہ :’’ مسجد کےاندر اذان دینا تما م فقہاء کےنزدیک مکروہ ہے،،۔

مولانا محمد ابراہیم مرحوم مفتی وخطیب جامع مسجد بنارس اپنی کتاب ’’ شهادةالأماجد فى أذان المساجد ،، میں ’’ كفايه  شرح هدايه جلد اول ص : 101 مطبع احمدی دہلی سےنقل کرتےہیں : ’’ روى الحسن عن أبى حنيفة رحمه الله ، أن المعتبر فى وجوب السعى وحرمة البيع،الأذان على المنارة ، إنه لوانتظر الأذان عندالمنبر ، يفوته أداء السنة ،، یہاں سے ثابت ہوگیا کہ امام اعظم کےنزدیک اذان ثانی منبر کےپاس ہونی چاہیے ،مفتی موصوف لکھتے ہیں کہ :’’ تیرہ سوبرس سےیہ اذان منبر کےپاس خطیب کےسامنے ہوتی تھی اورآجد بھی  ہورہی  ہے،،۔

علامہ ابن ہمام ’’ باب الاذان ،، میں لکھتےہیں کہ : مسجد میں اذان  نہ دی جائے ،،۔ لیکن یہی علامہ ابن ہمام اذان خطبہ میں ’’ بین یدیہ ،، امام کےسامنے بتاتےہیں اورتسلیم کرتےہیں کہ فقہاء لکھتےہیں کہ اذان خطبہ منبرکےپاس دی جائے  اوراسی پرتوارث ہے۔

مولانا موصوف فرماتےہیں : حرمین شریفین ، دہلی ، وآگرہ ، لاہور کی مسجدوں میں مکبرہ یامئذنہ بناہےوہ مسجد میں داخل ہے۔  لہذا اذان خواہ پنچگانہ ہویا اذان خطبہ ہو، کیسے مکروہ کہی جاسکتی ہے؟ توراث کےخلاف مکروہ ہے۔’’ ہدایہ ،، میں ہے:’’ يكره هو محالفة التوارث ،، . مبسوط سرخسی میں ہے:’’ استدلال التوارث من لدن رسول الله صلى الله  عليه وسلم الى يومنا هذا ،  التوارث كالتواتر ،،

شاه عبدالحق محدث دهلوى "" جذب القلوب ،، میں لکھتےہیں کہ :’’ اذان مسجد کےچھت سےبلال دیتےتھے ، اورچھت پرنماز درست ہے۔ اذان مسجد میں کیسے مکروہ ہوگی ؟،،

شاہ محی الدین عبدالقادر جیلانی ’’ عنیۃ الطالبین ،، میں لکھتےہیں کہ :’’ اذان ثانی منبر کےپاس خطیب کےسامنے دی جائے ، اذان اول عثمان غنی کےزمانہ میں مقام ’’زوراء،سےدی جاتی تھی ،،۔

اذان خطبہ کےمتعلق حدیث افتاء کےدیکھنے سےدوبات معلوم ہوتی ہے: اول :’’بين يديه ،، .دوم :’’ عندالمنبر ،، . ان دونوں  لفظوں کےدودومعنی ہیں :ایک :حقیقی ۔دوسرا :مجازی ۔ جب تک لفظ کاحقیقی معنی بن سکتا ہےمعنی مجازی نہ لیا جائے گا۔ان دونوں الفاظ سے نزدیک ودوردونوں مرادلیے جاسکتےہیں ۔لیکن نزدیک مراد لینا حقیقی ہےاوردور کامجازی ہے۔پس ’’ بین یدیہ ،، ’’ وعند ،، کاترجمہ قریب سےسامنا ہوتاہے۔اس لیے اذان خطبہ منبر کےسامنے ہونی چاہیے ، اب آگے جوکچھ حدیث میں ہےیہاں لکھا جاتاہےیہ حدیث ابی داؤد شریف سےمنقول ہے’’ عن  السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ، «أَنَّ الْأَذَانَ كَانَ أَوَّلُهُ حِينَ يَجْلِسُ الْإِمَامُ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَلَمَّا كَانَ خِلَافَةُ عُثْمَانَ، وَكَثُرَ النَّاسُ أَمَرَ عُثْمَانُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِالْأَذَانِ الثَّالِثِ، فَأُذِّنَ بِهِ عَلَى الزَّوْرَاءِ، وزاد فى رواية :  فَثَبَتَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ»-

دوسری حدیث سنن ابی داؤد میں ہے:’’ كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ،، (1088)1/500.

ابن الحاج ’’ مدخل ،، میں لکھتے ہیں :’’ السنة فى اذان الجمعة ، اذا صعد الامام على المنبر ، يكون المؤذن على المنارة ، وكذلك كان على عهد رسو ل الله صلى الله عليه وسلم وأبى بكر وعمر،،.

شاه عبدالحق محدث دهلو ى ’’ جذب القلوب ،، میں لکھتےہیں :کہ ’’ مسجد راسہ باب بود،بابے درجانب پایان کہ الآن قبلہ است ۔ وبابے درجانب غربی کہ الآن آنراباب الرحمۃ می گویند۔ ودرد یگر کہ آنحضرت ازاں دردرمی آیدآں باب آل عثمان است دوے رالآن باب جبریل می گویند ،، ۔ص 98مطبوعہ نولکشور۔

با ب جبریل پورب کی طرف ہےرسو ل اللہ ﷺ کاگھر مسجد سےپورب تھا جس کانقشہ یہ ہے: منبرلکڑی کاتھا جس کے تین درجے تھے ، ضرورت کےوقت دوسری جگہ اٹھایاجاتا تھا ، اگر اذان خطبہ منارہ سےہوتی یاان تین دروازوں سےدی گئی تو’’بین یدیہ،، و’’ عندالمنبر ،، جومحدثین وفقہاء تسلیم کرتےہیں کیسے عمل ہوا ؟ صحن مسجدمیں اذان مکروہ ہےیانہیں ؟ مع حوالہ کتاب وعبارت تحریرکیجئے ۔

                قمرالدین مدرس فارسی درجہ منشی دارالعلوم فضل رحمانیہ پچپڑوا،ضلع گوندہ،9؍جون 1969ء ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کتب فقہ حنفی کی درج ذیل عبارات سےواضح ہوتاہےکہ جمعہ کی اذان اول اورپنج وقتہ اذان کاجبکہ مقصود اس سے مسجد کےپڑوسیوں اورمحلّہ والوں اورکچھ دورکےلوگوں  کواطلاع کرنا ہو، حدود مسجد میں دنیا خواہ وہ حصہ مسقّف ہویاغیرمسقف یافنا ء مسجد، محض مکروہ تنز یہی یعنی : اولیٰ اورنامناسب ہے، کیونکہ یہ اذان اگرمسجد کےمسقف حصہ کےاندر ہوگی تواذان کی آواز قریب کے پڑوسیو ں کوبھی نہ پہنچے گی۔اوراگر غیرمسقف یعنی : کھلے ہوئے حصہ میں ہوگی تب بھی بوجہ مسجد کی چہاردیواری کےدورکےپڑوسیوں کو  اس اذان کی آواز اچھی طرح نہیں پہنچے گی ، اورپورے طورپراعلام نہ ہوسکےگا ،بنابریں جمعہ کی اذان اول اوراوقات خمسہ کی اذان کامسجد میں ہونا مناسب نہیں ہے، بلکہ منارہ پریاحدود مسجد سےخارج کسی اونچی جگہ ہونا مناسب ہے۔ اورجمعہ کی اذان ثانی یاوہ پنجوقتہ اذان جس کوکوئی صرف اپنے لیےدے یاان لوگوں کےلیے  جو پہلے ہی مسجد میں موجود ہیں ، تو اس کےلیے اونچی جگہ کی یا حدود مسجد سےباہر اذان دینے کی سنیت واوالویت نہیں ہےیعنی : اس اذان کازمین پرہونا یامسجد کےاندر ہوناخلاف اولیٰ اورمکروہ نہیں ہے بلکہ بلاکراہت جائز ہے۔

رد المختار 1؍357 میں ’’قنیہ ،، سےنقل کیاہے:’’ ويسن الأذان فى موضع عال،والاقامة على الأرض ،، اور ’’ سراج ،، سےنقل کیا ہے:’’ ينبغى للمؤذن أن يؤذن فى موضع يكون اسمع للجيران ، ويرفع صوته ولا يجهد نفسه ،، ..الخ بحر .

قلت  : والظاهر أن هذا فى موذن الحى ، أما من أذن نفسه أولجماعة الحاضرين ، فالظاهرأنه لايسن له المكان العالى ، لعدم الحاجة فتأمل .

اورسعایہ حاشیہ شرع وقایہ میں ہے:’’ لغز : أى أذان لايستحب رفع الصوت فيه ؟قل:هوالأذان الثانى يوم الجمعة ، الذى يكون بين الخطيب لأنه كالإقامة ، لإعلام الحاضرين .،،

اوردرمختارمیں ہے:’’ ويؤذن ثانيأبين يديه اى الخطيب ، اذا جلس على المنبر ،، اور’’تبيين الحقائق ،، شرح كنزالدقائق اور’’ فتاویٰ عالمگیری ،، میں ہے:’’ وينبغى أن يؤذن على المئذنه أو خارج المسجد، ولا يوذن فى  المسجد،، -

امام ابن الہمام ، صاحب ہدایہ کےاس قول کےمتعلق جس میں اذان مغرب کےبارےمیں جلسہ بین الاذان والاقامۃ ہونے نہ ہونے کی بابت امام صاحب اورصاحبین میں خلاف ہورہاہے،لکھتےہیں :’’ والمکان  فى مسئلتنا مختلف ، يفيد كون المعهودإختلاف مكانهما وهو كذلك شرعا، والإقامة فى المسجد ولا بد، وأما الأذان فعلى الئذنة،فإن لم يكن ، ففى فناء المسجد ، وقالو ا: لايوذن فى المسجد ،،.

اورجامع الرموز میں ہے:’’وفيه إيذان بوجوب الجهر فى الأذان لإعلام الناس،ولوأذن لنفسه خافت،لأنه الاصل فى الشرع، كما فى’’كشف المنار،، وبأنه يؤذن فى موضع عال وهو سنة ، كما فى’’القنية ،، وبأنه لايؤذن فى المسجد ، فإنه مكروه ، كما فى ’’النظم ،، وفى الجلابى :أنه يؤذن فى المسجد أو مافى حكمة ، لا فى البعيد عنه ،، -

اورصاحب ہدایہ لکھتےہیں :’’ (وَإِذَا صَعِدَ الْإِمَامُ الْمِنْبَرَ جَلَسَ وَأَذَّنَ الْمُؤَذِّنُونَ بَيْنَ يَدِي الْمِنْبَرِ) بِذَلِكَ( أى بالأذان بين يدى المنبر ،بعد الأذان الاول على المنارة)  جَرَى التَّوَارُثُ  ،،(أى  من  زمن عثمان رضى الله عنه  إلى يومنا هذا) وقال العينى فى’’ البناية- شرح الهداية ،، فى تفسيرات التوارث :’’ يعنى هكذا  فعل النبى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  والأئمة من بعده إلى يومنا هذا .،،

اور مبسوط سرخسی میں ہے:’’ والمعبرأول الأذان بعدزوال الشمس ، سواء كان على المنبر أو على الزوراء ،،

اورعنایہ شرح ہدایہ میں ہے:’’ وَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ زِيَادٍ يَقُولُ: الْمُعْتَبَرُ هُوَ الْأَذَانُ عَلَى الْمَنَارَةِ لِأَنَّهُ لَوْ انْتَظَرَ الْأَذَانَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ يَفُوتُهُ أَدَاءُ السُّنَّةِ وَسَمَاعُ الْخُطْبَةِ،، .

نيز صاحب عنایہ لکھتےہیں:’’كان الطحاوى يقول:المعتبرهوالأذان عندالمنبر ،بعدخروج الامام .،،

اور جامع الرموز میں ہے:’’و إذا جلس الإمام على المنبر أذن أذانا ثانيا بين يديه ، أى بين الجهتين المسامتتين  بيمين المنبر او الإمام ويسارة قريبا منه ووسطهما بالسكون ، فيشمل ماإذا كان فى زاوية قائمة أو حادة أو منفرجة .،،

اورکفایۃ شرح شرح ہدایہ ہے :’’  روى أ الحسن عن أبى حنيفة ، أن المعتبر فى وجوب السعى وحرمة البيع الأذان على المنارة ، لأنه لوانتظر الأذان عندالمنبر ، يفوته أداء السنة .

اور اوجز المسالک 1؍ 189 میں ہے:’’ لوأذن رجل فى بيته ،لا يرفع صوته، لئلايشوش على المسلمين ، كما يظهر من ملاحظة كلام الفقهاء أى الحنفية ،،.

مذکورہ عبارات کےمجموعہ سےصاف ظاہر ہےکہ جمعہ کی اذان اول اورپنجوقتہ اذان کاحدود مسجد کےاندر دینا مکروہ تحریمی نہیں ہے   بلکہ مکروہ تنزیہی یعنی : محض خلاف اولیٰ اورنامناسب ہے۔ کیونکہ مسجد کےاندر اذان دینے کی صورت میں خارجین عن المسجد(پڑوسیوں ، محلّہ والوں ،اور دورکےلوگوں) کواچھی طرح اعلام نہ ہوسکے گا۔

اور نہ اس مذکورہ اذان کےمسجد کےاندر مکروہ تنزیہی ہونے میں بھی فقہاء حنفیہ مختلف القول ہیں ، بعض کراہت کےقائل ہوئے اوربعض کراہت کےقائل نہیں ہوئے۔

اورجمعہ کی اذان ثانی کایا اس پنجوقتہ اذان کاجو صرف اپنے لیے دی جائے  یاان لوگوں کےلیے دی جائے جوپہلے ہی سے موجو د اورحاضرہیں ، اس کامسجد کےاندر دینا  کسی کےنزدیک مکروہ تنزیہی بھی نہیں ہے،بلکہ  سب کےنزدیک بلاکراہت جائز ہے۔

ایسی حالت میں کسی حنفی عالم کاخواہ بریلوی ہویا کچھوچھوی یادیوبندی ، مسجد کےاندر اذان دینے کی ( پنچوقتی ہویاجمعہ کی اذان ، اول  ہو، یاثانی )مکروہ تحریمی یابدعت سیئہ کہنا کیوں  کردرست ہوسکتا ہے؟ زیادہ سےزیادہ صرف یہ کہا  جاسکتا ہےکہ جمعہ کی اذان اول اورپنچوقتی اذان جواعلام عائبین کےلیے ہو، اس کامسجد کےاندر دینامکروہ تنزیہی  اورخلاف  اولیٰ ہے، اورجمعہ کی اذان ثانی کامسجد کےاندر دینا تومکروہ تنزیہی بھی نہیں ہے، بلکہ بلاکراہت جائز ہے۔

علماء حنفیہ مسجد کےحدود میں کسی جگہ بھی اذان دینے کےجواز پراحادیث سےاستدلا ل کرتےہیں :

(1)            ’’  قالت أم زيد بن ثابت : كان بيتى اطول بيت حول المسجد، فكان بلال يؤذن فوقه ، من أول ماأذن إلى أن بنى رسول الله صلى الله عليه وسلم  فكان يؤذن بعد على ظهر المسجد ، وقد رفع له شئى فوق ظهره ،، (ابن سعد8/420 بإسناد ضعيف ) .

(2)’’  عن عبدالله بن زيد الأنصارى قال : اهتم رسول الله صلى الله عليه  وسلم ....

 الحديث ، وفيه : فقام على سطح المسجد ، فجعل إصبعيه فى أذنيه ، ورأى ذلك عبدالله بن زيد فى المنام (ابوالشيخ فى كتاب الأذان كذا ذكره الشيخ عبدالحى اللكنوى فى سباحة الفكر) .

(3)  قال طلق بن على : فخرجنا (أى من المدينة )  حتى خَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا بَلَدَنَا فَكَسَرْنَا    بِيعَتَنَا، ثُمَّ نَضَحْنَا مَكَانَهَا , وَاتَّخَذْنَاهَا مَسْجِدًا، فَنَادَيْنَا فِيهِ بِالْأَذَانِ ،، (نسائى ) .

(4)’’ عن السائب بن يزيد قال :’’كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ وأبى بكر وعمر،، (ابوداؤد).

علماء حنفیہ کہتےہیں کہ ’’ علی باب المسجد ،، کی زیادتی ساذ اورغیرمحفوظ ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے۔کیونکہ اس لفظ کےروایت کرنے میں محمد بن اسحق منفرد ہیں ، اوروہ مدلس ہیں ، اورعن ،، کےساتھ بغیر تصریح سماع کےاس لفظ کوروایت کیا ہے۔

محمد بن اسحاق کےچھ ساتھی 1۔ عقیل 2۔ یونس 3۔ ابن ماجشون (عندالبخاری وغیرہ )،ابن ابی ذئب (عنداحمد 3؍450 وابی  داؤد والنسائی وابن ماجہ صالح سلیمان التیمی،(عندابی داؤد والنسائی   ، زہری عن السائب سےاس حدیث کوبغیر زیادۃ مذکورہ کے روایت کرتےہیں اورخود محمدبن اسحاق بھی انہیں زہر ی سےمسند احمد3؍349کی ایک روایت میں بغیر اس زیادۃ کےروایت کرتےہیں ۔

ایک جماعت ثقات کااس زیادۃ سےسکوت کرنادلیل ہےاس امر کی یہ زیادۃ محفوظ نہیں ہے۔

نیز یہ لفظ ، معارض ہے:’’  بين يديه ،، کے ۔ قال النیموی فی تعلیق آثار السنن ص:94:’’ قولہ: على باب المسجد ، يعارض مافى حديث بن اسحاق من قوله ، كان يؤذن بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، لأن التاذين عندالخطبة ، لوكان على باب المسجد ، لم يكن بين يديه صلى الله عليه وسلم ، اذ لايقال بين يديه لشئى كان من وراء الصفوف ، فتبين ان حديث ابن اسحاق فى التأذين عندالخطبة على باب المسجد ، ليس مما تقوم به الحجة.،،

(5)      عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: «كَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ إِذَا جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِذَا نَزَلَ أَقَامَ، ثُمَّ كَانَ كَذَلِكَ فِي زَمَنِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،، (احمد ، نسائى)

 قال النيموى فى تعليقه على آثار السنن ص: 95 :   ’’ قوله : فإذا نزل أقام  ، قلت :هذا يدل على أن بلال ، كان يؤذن يوم الجمعة عندالنبى صلى الله عليه وسلم  ، فى داخل المسجد ، لاعلى بابه ، لأنه كان يقيم اذا نزل النبى صلى الله عليه وسلم  عن المنبر ، فلوكان يؤذن على باب المسجد ، ثم يدخل فى الصف الأول للإقامة ، لزمه التخطى ، وهو منهى عنه ، فدل على أن التأذين عندالخطبة والإقامة عندالنزول كا محلهما واحداً ، ومحل الإقامة عندالإمام ، فكذلك  التأذين عندالخطبة محلة عندالإمام ، وبذلك جرى التوارث على ماقاله صاحب الهداية ، قلت : فبطل بذلك قول من زعم ، أن التأذين عندالخطبة فى المسجد بدعة ،، انتهى .

                                                ٭٭٭٭٭٭

  فقہائے حنفیہ کےمذکورہ مسلک اوران کی مستدل بہ احادیث کاجائزہ

اورمسلک حق کی تعیین

(1)  یہ دعویٰ کہ اگر اذان صرف اپنے لیے ہویا ، ان لوگوں کےلیے ہوجوپہلے

سےموجود اورحاضر ہیں ، تورفع صوت اوراونچے مقام کی  ضرورت نہیں ہےیعنی :ایسی صورت میں بلند آواز سےاذان کہنا مستحب نہیں ہےبلکہ پست آواز کہنا بہتر ہے،ہمارےنزدیک یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے ، احادیث ذیل سےمعلوم ہوتاہے کہ نماز کےلیے اذان ایک اسلامی شعار ہے۔اورنماز کےوقت میں رفع صوت کےذریعہ اس کا اظہار واعلان ہونا چاہیے ، خواہ صرف اپنے لیے دی جائے یاپہلے سےحاضر وموجود لوگوں کےلیے یامسجد سےغائب پڑوسیوں ،محلے اورگاؤں والوں کےلیے ہو۔

1۔   عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ أَحَالَ لَهُ ضُرَاطٌ حَتَّى لَا يَسْمَعَ صَوْتَهُ.( مسلم وغيره ) .

2-عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ ذَهَبَ حَتَّى يَكُونَ مَكَانَ الرَّوْحَاءِ» قَالَ سُلَيْمَانُ: فَسَأَلْتُهُ عَنِ الرَّوْحَاءِ فَقَالَ: «هِيَ مِنَ الْمَدِينَةِ سِتَّةٌ وَثَلَاثُونَ مِيلًا،، (مسلم ) .

(2)         عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ سَمِعَهُ مِنْ فَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الْمُؤَذِّنُ يُغْفَرُ لَهُ بِمَدِّ صَوْتِهِ وَيَشْهَدُ لَهُ كُلُّ رَطْبٍ وَيَابِسٍ» الحديث (ابوداؤد  ، نسائى .

(3)        عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ، وَالْمُؤَذِّنُ يُغْفَرُ لَهُ بِمَدِّ صَوْتِهِ وَيُصَدِّقُهُ مَنْ سَمِعَهُ مِنْ رَطْبٍ وَيَابِسٍ، ، الحديث (احمد ، ونسائى 2/ 13 وغيره ) .

(5)عن ابن عمر نحو ذلك بلفظ : ’’ يستغفرله كل رطب ويابس سمع صوته .،، (احمد ، طبرانى فى الكبير، نزار ) .

(6) ’’  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ الأَنْصَارِيِّ ثُمَّ المَازِنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ، قَالَ لَهُ: إِنِّي أَرَاكَ تُحِبُّ الغَنَمَ وَالبَادِيَةَ، فَإِذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ، أَوْ بَادِيَتِكَ، فَأَذَّنْتَ بِالصَّلاَةِ فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ، فَإِنَّهُ: «لاَ يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ المُؤَذِّنِ، جِنٌّ وَلاَ إِنْسٌ وَلاَ شَيْءٌ، إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ القِيَامَةِ»، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،، (بخارى ، موطا، (148)ص:560،نسائى 2/12).

(7),, عن عبدالله بن ربيعة السلمى ، قال: كان النبى صلى الله عليه وسلم فى سفر،فسمع مؤذنايقول اشهد أن لا له إلا الله،فقال النبى صلى الله عليه وسلم:أشهد أن لا اله الا الله،الحديث،وفيه:فقال النبى صلى الله عليه وسلم:تجدونه راعى غنم أو عازباعن أهله،،(احمد ، نسائى  ، طبرانى فى الكبير ) .

(8) وفى الأذان فى السفر للرجل وحده أحاديث عن معاذ بن جبل عندأحمد والطبرانى ، وعن ابى جحيفة عندالبزار ، وعن أبى سعيد الخدرى عندالبزار أيضا، وعن أبى أمامة عندالطبرانى ، ذكرها الهيثمى فى مجمع الزوائد   (1/ 335 ) مع الكلام عليها .

(9) قال ابن العربى : ’’  الأذان من شعرالدين ، يحقن  الدماء ويسكن الدهماء ،كان صلى الله عليه وسلم  إذا سمع أذاناً أمسك والإأغار، فهو واجب على البلد أوللحى ، وليس بواجب فى كل مسجد ولا على كل فذ، لكنه يستحب  فى مساجد الجماعات ، أكثر مما يستحب فى الفذ،،(الأوجز 1/ 189) .

 وقال فى المغنى 2/74: ’’ وَإِنْ كَانَ فِي الْوَقْتِ، فِي بَادِيَةٍ أَوْ نَحْوِهَا، اُسْتُحِبَّ لَهُ الْجَهْرُ بِالْأَذَانِ؛ لِقَوْلِ أَبِي سَعِيدٍ: «إذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ أَوْ بَادِيَتِكَ فَأَذَّنْتَ بِالصَّلَاةِ، فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ، فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ الْمُؤَذِّنِ جِنٌّ وَلَا إنْسٌ وَلَا شَيْءٌ إلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْت ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -.» وَعَنْ أَنَسٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُغِيرُ إذَا طَلَعَ الْفَجْرُ، وَكَانَ إذَا سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ،وَإِلَّا أَغَارَ، فَسَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ،  الحديث ، وفيه  فَنَظَرُوا فَإِذَا صَاحِبُ مَعَزٍ» أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ،،.

احادیث مذکورہ بالا سےمعلوم ہواکہ : وقت پردی جانے والی اذان کےلیے مطلقاً رفع صوت مشروع ہے، خواہ صرف اپنے لیے ہو یاموجودین وحاضرین کےلیے ہو،یامحلہ اورپڑوس اورگاؤں والون کےلیے ہو، حضرمیں ہویاسفر میں ، پس اس بارہ میں اکیکے اورجماعت حاضراورغائب کےدرمیان فرق کرنا صحیح نہیں ہے۔اور چونکہ اونچی اورکھلی ہوئی جگہ میں اذان دینا، ارتفاع صو ت اوراعلان واظہار میں ممدومعاون ہے،اس لیے اونچی اورکھلی ہوئی جگہ میں اذان دیناخواہ کسی نماز کےلیے ہومسنون ہے۔اوراس کاخلاف غیرمسنون ۔

اذان کی مشروعیت کی ابتدا اوراس میں رفع صوت کی علت مسجد سےغائب پڑوسیوں،محلہ والوں اوردورکےلوگوں کونماز کےوقت کی اطلاع دینی تھی ، مگراب یہ علت موجود ہویانہ ہو، بہرحال وقت پردی جانے والی اذان میں رفع صوت مستحب ہےجیسےمسافر کےلیے  افطار صوم کی مشروعیت کی علت مشقت تھی ،لیکن اب مسافر کومطلقاً افطار کی اجازت ہے۔ چاہے اس کی سفر میں بالفعل مشقت ہویانہ ہو۔

بنابریں جمعہ کی اذان جوخطبہ کےوقت دی جاتی ہےاس میں بھی عام پنجوقتہ اذان کی طرح رفع صوت مستحب ہے۔اورمولانا عبدالحئ لکھنوی کابیان کردہ معمہ اورلغز غیرمعقول اوربےبنیاد ہے۔

(2)احادیث صحیحہ کی بناپر اس امر پرسب کااتفاق ہےکہ عہد نبوت اورعہد خلافت صدیقی اورفاروقی اورابتداء خلافت عثمانی میں جمعہ کی ایک ہی اذان  ہوتی تھی ،جسے اب اذان خطبہ کہتےہیں ، دوسری اذان یعنی : خطبہ والی اذان سےپہلے ایک اذان  کااضافہ حضرت عثمان ﷜  نےایک خاص ضرورت سےکیا تھا، جومسجد نبوی کےقریب بازار میں ان کےایک مکان پرجس کانام زوراء تھا دی جاتی تھی ۔ اس ضرورت کابیان ان الفاظ میں مذکورہے:’’ فَلَمَّا كَانَ خِلَافَةُ عُثْمَانَ، وَكَثُرَ النَّاسُ أَمَرَ عُثْمَانُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِالْأَذَانِ الثَّالِثِ، فَأُذِّنَ بِهِ عَلَى الزَّوْرَاءِ قبل خروجه ، ليعلم الناس أن الجمعة قد حضرت،، .(ابودؤاد، ابن المنذر ، عبدبن حميد، ابن مردويه ) .

 حضرت عثمان ﷜ نےجس ضرورت سےاس پہلی اذان کااضافہ کیاتھا اگر کسی مقام میں یہ ضرورت متحقق ہو، تو’’ عليكم بسنتى وسنة الخلفاء الراشدين المهديين ،، كےمطابق یہ اذان دی جاسکتی ہے۔اورجہاں یہ ضرورت نہ ہو وہاں سنت نبوی وصدیقی وفاروقی کےمطابق صرف خطبہ والی اذان پراکتفا کرناچاہیے ۔

شیخ ناصرالدین البانی الاجوبۃ النافعۃ ص : 8؍9؍10 میں لکھتےہیں :’’ لا نرى الاقتداء بما فعله عثمان رضي الله عنه على الإطلاق ودون قيد فقد علمنا مما تقدم أنه إنما زاد الأذان الأول لعلة معقولة وهي كثرة الناس وتباعد منازلهم عن المسجد النبوي فمن صرف النظر عن هذه العلة وتمسك بأذان عثمان مطلقا لا يكون مقتديا به رضي الله عنه بل هو مخالف لعثمان أن يزيد على سنته عليه الصلاة والسلام وسنة الخليفتين من بعده فإذن إنما يكون الاقتداء به رضي الله عنه حقا عندما يتحقق السبب الذي من أجله زاد عثمان الأذان الأول وهو "كثرة الناس وتباعد منازلهم عن المسجد" كما تقدم ،

وهذا السبب لا يكاد يتحقق في عصرنا هذا إلا نادرا وذلك في مثل بلدة كبيرة تغص بالناس على رحبها كما كان الحال في المدينة المنورة ليس فيها إلا مسجد واحد يجمع الناس فيه وقد بعدت لكثرة منازلهم عنه فلا يبلغهم صوت المؤذن الذي يؤذن على باب المسجد وأما بلدة فيها جوامع كثيرة كمدينة دمشق مثلا لا يكاد المرء يمشي فيها إلا خطوات حتى يسمع الأذان للجمعة من على المنارات وقد وضع على بعضها أو كثير منها الآلات المكبرة للأصوات فحصل بذلك المقصود الذي من أجله زاد عثمان الأذان ألا وهو إعلام الناس: أن صلاة الجمعة قد حضرت كما نص عليه في الحديث المتقدم: وهو ما نقله القرطبي في تفسيره "10/18" عن الماوردي:

فأما الأذان الأول فمحدث فعله عثمان ليتأهب الناس لحضور الخطبة عند اتساع المدينة وكثرة أهلها  وإذا كان الأمر كذلك فالأخذ حينئذ بأذان عثمان من قبيل تحصيل حاصل وهذا لا يجوز لا سيما في مثل هذا الموضع الذي فيه التزيد على شريعة رسول الله صلى الله عليه وسلم دون سبب مبرر وكأنه لذلك كان علي بن أبي طالب رضي الله عنه وهو بالكوفة يقتصر على السنة ولا يأخذ بزيادة عثمان كما في "القرطبي "

وقال ابن عمر:

"إنما كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا صعد المنبر أذن بلال فإذا فرغ النبي صلى الله عليه وسلم من خطبته أقام الصلاة والأذان الول بدعة".

رواه أبو طاهر المخلص في "فوائده" "ورقة 229/1 – 2).

والخلاصة: أننا نرى أن يكتفى بالأذان المحمدي وأن يكون عند خروج الإمام وصعوده على المنبر لزوال السبب المبرر لزيادة عثمان واتباعا لسنة النبي صلى الله عليه وسلم وهو القائل:

"فمن رغب عن سنتي فليس مني 1" متفق عليه

وبنحو ما ذكرنا قال الإمام الشافعي ففي كتابه "الأم" "1/172 - 173" ما نصه:

وأحب أن يكون الأذان يوم الجمعة حين يدخل الإمام المسجد ويجلس على المنبر فإذا فعل أخذ المؤذن في الأذان فإذا فرغ قام فخطب لا يزيد عليه

ثم ذكر حديث السائب المتقدم ثم قال: بعد ذكرالأذان الذى زاده عثمان: ’’ فالأمر الذي كان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم أحب إلي فإن أذن جماعة من المؤذنين والإمام على المنبر وأذن كما يؤذن قبل أذان المؤذنين إذا جلس الإمام على المنبر كرهت ذلك له ولا يفسد شيء منه صلاته ، ،    ولقد ذكرالحافظ   فى الفتح 2/32:’’ أن العمل بهذه السنة استمرفى المغرب حتى زمنه ،،أعنى ابن حجر أى القرن الثامن،،انتهى  .

(3)پنچ وقتہ اذان کااندرون مسجد اس کےمسقّف حصے میں دینا بلاشبہ مکر وہ ہے۔ اسےبہرحال کھلی ہوئی اوراونچی جگہ میں بلند آواز سےدینا چاہیے ۔

اذان کےبارےمیں احادیث واردہ کامقتضا یہی ہے، اور جمعہ کےدن اذان عثمانی کی ضرورت ہوتومسجد سےکچھ فاصلے پرمناسب اونچی جگہ جہاں اذان کےدینے کی ضرورت پوری ہو، یہ اذان بلند آواز سےدینی چاہیے۔ لیکن خطبہ جمعہ کی اذان چاہے اذان عثمان دی جائے  ، یا نہ دی جائے بہرحال اسے مسجد کےاحاطہ کی مشرقی دیوار پرجہاں سےخطیب کاسامنا پڑتا ہو، یااگر وہاں پردروازہ ہوتو اس کےاوپرجوایک کھلی ہوئی جگہ ہوتی ہے۔یہ اذان دینی چاہیے ۔خطبہ جمعہ کی اذان کااندرون مسجد مسقّف حصہ میں منبر کےبالکل قریب ، یا آٹھ دس ہاتھ کھلی ہوئی جگہ ہوتی ہے۔یہ اذان دینی چاہیے۔خطبہ کی اذان کااندرون مسجد مسقّف حصہ میں منبر کےبالکل قریب ،یا آٹھ دس ہاتھ کےفاصلہ  پردینا بالکل بےثبوت اوربے بنیاد چیز ہے۔

٭ حضرت ام زيد بن ثابت كى حديث جو طبقات این سعد میں مروی ہے  اولاً : تواس اس کی سند ضعیف ہے ۔

ثانیاً: اس میں ’’  فكان يؤذن بعد على ظهرالمسجد، وقد رفع له شئى فوق ظهره ،، پنج وقتہ اذان کےمسجد کی چھت پر،جوایک کھلی ہوئی اونچی جگہ ہونے کی وجہ سے منارہ کےمشابہ اوراس کےحکم میں تھی دینےکاثبوت ہوتاہے، اندرون مسجد دینے کاثبوت نہیں ہوتا،زیادہ سےزیادہ اس سے فضاء مسجد میں اذان دینے کاثبوت ہوتاہےاوربس ۔

٭ اورعبداللہ بن زیدانصاری کی حدیث الاذان الابی الشیخ (الاصفہانی ) میں مروی ہےجس کی سند کاحال معلوم نہیں ہےاس میں بھی ’’ فقام على سطح المسجد،، کےلفظ کی چھت پرجوکھلی ہوئی اونچی جگہ تھی ۔ اذان دینے کاذکر ہےاندرون مسجد مسقّف حصہ میں دینے کاذکر  نہیں ہے۔

٭ اورطلق بن علی کی حدیث جونسائی میں مروی ہےمجمل ہے۔ اس میں صرف مسجد میں اذان دینے کاذکر ہے، یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ لوگ اذان مسجد کےکس حصہ میں دینے تھے ؟ علاوہ بریں وہ ایک جزوی واقعہ ہےجس میں کئی احتمالات نکلتے ہیں ۔نیز یہ صحابہ کا ایک فعل  ہےاور اس امر پرکوئی دلیل نہیں ہےکہ آنحضر ت ﷺ کوان کےفعل کاعلم ہواہو، اور آپ نے انہیں اس پرباقی رکھا ہو۔

٭ اورحضرت سائب بن یزید کی حدیث جس میں ’’ كان يؤذن بين يدى رسو ل الله صلى الله عليه وسلم إذا جلس على المنبر ، ، الخ

مذکور ہے، اس میں خطبہ جمعہ کی اذان کےمنبر کےقریب اس سےمتصل یاکچھ فاصلہ پردینے پراستدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔

’’ بين يديه،، كا اطلاق لغۃ ہر اس چیز پرہوتاہےجوکسی کےمقابل اورسامنے اورآگے ہو،خواہ اس کےقریب ہویا دور، اس اعتبار سے یعنی ’’ قدام ،، اور ’’ امام ،، اور’’مقابل،،کےمعنی میں ہونے کےلحاظ سےوہ مبہم ہے۔ اس ابہام کی تفسیر اورتعیین اس حدیث میں ’’ علی باب المسجد ،، کےلفظ سےہوتی ہے۔جس کاحاصل یہ ہےکہ آنحضرت ﷺ جمعہ کےدن خطبہ کےلیے منبر پربیٹھنے کےوقت  ، اذان آپ کےمقابل اورسامنے منبر سےدورمسجد کےدروازے پرہوتی تھی جوایک کھلی ہوئی اونچی جگہ تھی ، مسجد کےاندر مسقّف حصہ میں منبر کےبالکل قریب متصلا یاکچھ فاصلہ پرنہیں ہوتی تھی ۔

خطبہ والی اذان کےامام کےسامنے ، منبر کےقریب دینے کاکسی روایت سےثبوت نہیں ملتا ۔ابن عبدالبر نےامام مالک سے نقل کیا ہے:’’  إن الأذان بين يدى الامام ليس من الأمر القديم ، ،يعنى انه بدعة ، وقد صرح بذلك  ابن عابدين فى الحاشية : 1/362 حيث قال:’’ وكذلك نقول فى الأذان بين يدى الخطيب ، فيكون بدعة حسنة ، إذ مارآه المومنون حسناً فهو حسن ، ، وقد صرح بذلك ابن الحاج أيضا فى المدخل 2/63 حيث قال:’’ فصل فى النهى عن الأذان فى المسجد  : إن اللأذان ثلثة مواضع : المنار وعلى سطح المسجد وعلى بابه،وإذا كان ذلك كذلك ، فيمنع من الأذان فى جوف المسجد ، لوجوه:

أحدها: أنه لم يكن من فعل من مضى ،

الثانى:  أن الأذان إنما هو نداء للناس  ليأتتوا إلى المسجد ، ومن كان فيه فلافائدة لندائة، لأنه ذلك تحصيل حاصل ، ومن كان فى  بيته ، فإنه لايسمعه من المسجد غالباً ، وإذا كان الأذان فى المسجد على هذه الصفة فلا فائدة له ، فما ليس فيه فائدة يمنع ، ، انتهى وكذا قال فى 2/45و 61 .

وقد صرح بذلك غيرهما أيضا، ممن أقدم وأعلم منهما ، قال الشاطبى  فى الإعصتام 2/13،14 ما ملخصه : ’’ قال ابن رشد : الأذان بين يدى الإمام فى الجمعة  مكروه لأنه محدث،وأول من أحدثه هشام بن عبدالملك ، فإنه نقل الأذان الذى كان بالزوراء إلى المشرفة ، ونقل الأذان الذى كان بالمشرفة بين يديه ، وتلاه على ذلك من بعده من الخلفاء إلى زماننا هذا ، قال: وهو بدعة ، والذى فعله رسول الله صلى الله عليه وسلم  والخلفاء الراشدون بعده هوالسنة ، وذكرابن حبيب ماكان فعله صلى الله عليه وسلم وفعل الخلفاء الراشدون بعده، كما ذكرابن رشد وذكرقصة هشام ، ثم قال : والذى كان فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم  هى السنة ، ، وماقاله ابن  حبيب ، أن الأذان عندصعودالامام على المنبر، كان باقيا فى زماننا عثمان رضى الله عنه ، موافق لما نقله أرباب النقل الصحيح  ، وأن عثمان لم يزد على ماكان قبله ، إلا الأذان على الزوراء ، فصار إذا نقل هشام الأذان المشروع فى المنارة ، إلى مابين يديه بدعة فى ذلك المشروع،،.

واضح رہےکہ   خطبہ والی اذان کااندرون مسجد منبر کےقریب دیا جانا، نہ آنحضرتﷺ سےمنقول ہے،نہ خلفاء راشدین سے،  مولانا انورشاہ کشمیری ’’ فیض الباری ،، 2؍ 335 میں فرماتےہیں :’’  ولم أجد على كون هذا الأذان داخل المسجد دليلاعندالمذاهب الأربعة ، إلا ماقال صاحب الهداية أنه جرى به التوارث، ثم نقله الآخرون أيضا، ففهمت منه أنهم ليس عندهم دليل ، غير ماقاله صاحب الهداية ، ولذا يلجأون إلى التوارث ،، انتهى.

لیکن صاحب ہدایہ کےدعوی توارث کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے ،

اولاً: اس لیے کہ یہ مخالف ہےرسول  اللہ ﷺ اورخلفاء راشدین کی سنت کے۔

اوردوسرا اس وجہ سے کہ اس کی ابتداء ہشام بن عبدالملک کےزمانہ سےہوئی ہے۔

صحابہ کےزمانہ سےنہیں ہوئی ہے۔ جیسا کہ معلوم ہوچکا ، اورایسےعرف کاشرعاً کوئی اعتبار نہیں ہے۔ابن عابدین رد المختار 2؍769 میں لکھتےہیں :’’  ولا عبرة بالعرف الحادث إذا خالف النص ، لأن التعارف انما يصلح دليل على الحل ، إذا كان عاما من عهدالصحابة والمجتهدين ، كما صرحوابه ،، انتهى.

اورصاحب عون  المعبود ، (3/435 ) صاحب ہدایہ کےدعویٰ توارث کونقل کرنے کےبعد فرماتےہیں :’’ وَأَنْتَ خَبِيرٌ أَنَّ الْفَقِيهَ الْإِمَامَ بُرْهَانَ الدِّينِ مُؤَلِّفَ الْهِدَايَةِ مِنَ الْأَئِمَّةِ الْكِبَارِ لَكِنْ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ دَعْوَى التَّوَارُثِ عَلَى ذلك إلا بنقل صريح إلى النبي ولم يثبت قط فيما أعلم بل تبطل دعوى التوارث ما نقله بن عَبْدِ الْبَرِّ عَنْ مَالِكٍ الْإِمَامِ كَمَا تَقَدَّمَ  ،،.

اورمولانا عبدالحئی لکھنوی عمدۃ الرعایۃ حاشیہ شرح وقایہ 1؍ 271 میں :’’  إذا جلس على المنبر أذن ثانيا بين يديه ، ، پرلکھتےہیں ’’ قوله بين يديه: أى مستقبل الإمام فى المسجدكان أوخارجاً ، والمسنون : هو الثانى ، ففى سنن أبى داؤد بسنده عن السائب بن يزيد، أن الأذان كا أوله حين يجلس الإمام على المنبر يوم الجمعة فى عهد النبى صلى الله عليه وسلم وأبى بكر وعمرالحديث ...........؟ وبسندآخرعنه : كان يؤذن بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا جلس على المنبر يوم الجمعة على باب  المسجد وأبى بكروعمر ،، اس کےبعدمولانا لکھنوی نےکتاب المدخل 2؍ 45 سےابن الحاج مالکی کا وہ کلام نقل کیا ہےجس کی طرف ہم اشارہ کرچکے ہیں ۔

 اورشیخ عبدالرحمن بناء ساعاتی شرح مسند احمد 6؍83؍84 میں سائب بن یزید کی بعض روایات ذکرکرنے کےبعد لکھتےہیں :’’  وفيها أن الأذان الذى كان على عهدرسول الله صلى الله عليه وسلم وأبى بكر وعمر رضى الله عنهما، كان على باب المسجدأوعلى المسجدكما فى بعض الروايات ، ففعله الآن أمام المنبر داخل المسجد محدث ، وليس من السنة فى  شئى  ، وكان الذى أحديه، فهم مما جاء فى بعض الروايات بلفظ : كان يؤذن بين يدى رسو ل الله صلى الله عليه وسلم أن ذلك كان عندالمنبر داخل المسجد ، ويرده ماجاء واضحاً فى رواية أبى داؤد عن السائب بن يزيد، وقال : عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، فهو صريح فى أن الأذان كا ن على باب  المسجد ، لا داخله عندالمنبر،، انتهى.

تنبيه:

علامہ شاطبی، ابن رشد،ابن الحاج، ابن حبیب کےکلام سےمعلوم ہوتاہےکہ جمعہ کےدن خطبہ والی اذان ، منارہ پرہوتی تھی ، لیکن کسی روایت سےصراحتہ اس کاثبوت نہیں ہوتا ۔آنحضرت ﷺ  اورخلفاء راشدین کےزمانوں میں منارے نہیں تھے،ہوسکتاہےکہ ابن الحاج وغیرہ کےکلام میں منارہ سےمراد سطح مسجد ہو۔شیخ البانی لکھتےہیں :’’ لم أقف على مايدل صراحة ، أن الأذان النبوى يوم الجمعة كان على المنارة ، إلاماتقدم فى الحديث ، أنه كان على كان على باب المسجد ، فإن ظاهره أنه على سطحة عندالباب ، ويؤيد هذا أن من المعروف أنه كان لبلال ، وهو الذى كان يؤذن يوم الجمعة شئى يرقى عليه ليؤذن ، ففى صحيح البخارى عن القاسم بن محمد عن عائشة رضى الله عنها: «إِنَّ بِلاَلًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فإنه لايؤذن حتى يطلع الفجر، قال القاسم : ولم يكن بين اذانهما ،إلا يرقى هذا وينزل ذاك .

فلعله كان هناك عندالباب على السطح شى مرتفع يشبه المنارة ، وقد يشهدلهذا ماأخربه ابن سعد فى الطبقات (8/307 ) بإسناد عن  ام زيد بن ثابت ’’ قَالَتْ: كَانَ بَيْتِي مِنْ أَطْوَلِ بَيْتٍ حَوْلَ الْمَسْجِدِ وَكَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ فوقه من اول ماأذن ، إلى أن بنى رسو ل الله صلى الله عليه وسلم  مسجده ، فكان يؤذن بعد على ظهرالمسجد ، وقد رفع له شئى فوق ظهره ،،لكن إسناده ضعيف ، وقدرواه أبوداؤد وغيره بإسناد حسن ، دون قوله:’’ وقد رفع له شئ فوق ظهره ، ، . والله اعلم .

والذى تلخص عندى فى هذالموضوع ، أنه لم يثبت أن المنارة فى المسجد ،كانت معروفة فى عهده صلى الله عليه وسلم ، ولكن من المقطوع به أن الأذن كان حينذاك فى مكان مرتفع على المسجد يرقى اليه   كما تقدم ، ومن المحتمل أن الرقى المذكور، انما هو إلى ظهرالمسجد فقط،ومن المحتمل أنه إلى شئى كان فوق ظهره ، كما فى حديث أم زيد، وسواء كان الواقع هذا أوذاك  ، فالذى نجزم به أن المنارة المعروفة اليوم ، ليست من السنة فى شئى ،، إلى آخرماقال ( الاجوبة النافعة ص : 14.15 )

ہمارے مذکورہ بالا تفصیلی کلام سےواضح ہوگیا کہ ’’ علی باب المسجد ،، اور’’ بین یدیہ ،،کےدرمیان کوئی تعارض نہیں ہے، بلکہ ’’ علی باب  المسجد،،’’ بین یدیہ ،، کی تفسیر اوراس کابیان ہے،جیسا کہ ابھی بیان کیا گیا ۔

مولانا خلیل احمدسہارنپوری بذل المجہود2؍180  میں لکھتےہیں :’’  ولا مناقاة بين قوله:بين يدى رسو ل الله صلى الله عليه  وسلم ، وبين على باب المسجد ، فإن باب المسجد هذا كان فى جهة الشمال ، فإذا جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر للخطبة ، يكون هذا الباب قدامه ، فكونه بين يديه عام شامل لما كان فى محاذاته ، أو سيئا منحرفا إلى اليمن ، أويكون على الأرض أوالجدار ،، انتهى.

’’ على باب المسجد ،، کےلفظ کو’’ شاذ ،، قراردینا صحیح نہیں ہے۔اس لیےکہ شاذ اصطلاحاً اس حدیث یازیادۃ کوکہتےہیں : جس کےروایت کرنے میں کوئی ثقہ منفرد ہو،اوروہ دوسرے ثقہ راویوں کی روایت کےمخالف اورمعارض ہو،اور’’علی باب المسجد،،کی زیادۃ کسی دوسری روایت کےمعارض اورمخالف نہیں ہے،اوریہ بھی معلوم ہوچکا ہےکہ  ’’ علی باب المسجد ،،  اور’’ بین یدیہ ،، کے درمیان کوئی تعارض ،تخالف اورمناقاۃ نہیں ہے۔

اور’’ علی باب المسجد ،، کےغیر محفوظ ہونے کادعویٰ بھی صحیح نہیں ہے،حفاظ ونقادمحدثین میں سے کسی نے بھی اس زیادۃ پرغیرمحفوظ ہونے کا حکم نہیں لگایا ہے۔محمد بن اسحاق کےساتھیوں کااس لفظ کوروایت نہ کرنا اس کےغیر محفوظ ہونےکی دلیل نہیں ، محمد بن اسحٰق ثقہ راوی ہیں اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہواکرتی ہے،الا یہ کہ اس کےوہم راوی ہونے پرکوئی واضح قرینہ موجود ہو، اورمشاہیر ماہرین علل حدیث میں سے کسی امام نےاس کےوہم ہونے کاحکم لگایا ہو۔ اویہاں کسی محدث نےاس پرغیرمحفوظ اوروہم ہونے کاحکم نہیں لگایا ہے،

محمد بن اسحاق بےشک مدلس ہیں اورانہوں نے خاص اس روایت میں زہری سےسماع کی تصریح نہیں کی ہے ، لیکن اذان جمعہ سے متعلق سائب بن یزید کی ایک حدیث میں جومسند احمد کےاندرمروی ہےمحمد بن اسحاق  نےزہری سےسماع کی تصریح کردی ہے۔

امام احمد فرماتےہیں :’’ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الزُّهْرِيُّ [ص:492]، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ابْنِ أُخْتِ نَمِرٍ، قَالَ: " لَمْ يَكُنْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا مُؤَذِّنٌ وَاحِدٌ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا فِي الْجُمُعَةِ، وَغَيْرِهَا يُؤَذِّنُ وَيُقِيمُ، قَالَ: كَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ إِذَا جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَيُقِيمُ إِذَا نَزَلَ "، وَلِأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، حَتَّى كَانَ عُثْمَانُ،، .

حافظ ابن عبدالبر  مالکی ’’ تمہید ،، شرح موطا میں ابن اسحاق کی ’’ علی باب المسجد،،والی روایت نقل کرنے کےبعد لکھتےہیں : ’’ فى حديث ابن اسحاق هذا مع حديث مالك ويونس، مايدل على أن الأذان كا ن بين يدى رسو ل الله صلى الله عليه وسلم ، إلا أن الأذان الثانى  عندالباب المسجد ، والثالث أحدثه عثمان على الزوراء ،،انتهى.

 سائب بن يزيد كى  حدیث میں ابن شہاب زہری کےچھ شاگرد ،یعنی :محمدبن اسحاق کےچھ ساتھی :1۔ عقیل 2۔ یونس ،3۔ ابن ماجشون ،4۔ ابن ابی زئب ،5۔صالح،6۔سلیمان تیمی ، ان میں سےکوئی بھی خطبہ جمعہ کی اذان کامحل اورمقام ذکرنہیں کرتا، بخلاف محمدبن اسحاق کےکہ یہ اپنی روایت میں اذان کامحل ذکرکرتےہیں ، اور وہ ’’ بين يدى رسو ل الله صلى الله عليه وسلم على باب المسجد،،كالفظ ہے،وہ  اس پورے لفظ کے روایت کرنے میں منفرد ہیں اگر ’’علی باب المسجد،،کی  زیادۃ میں ان کاتفرد اورسماع کی تصریح نہ کرنا اس زیادۃ کےشاذ ، وہم ،غیرمحفوظ، ناقابل  احتجاج  ہونے کی دلیل ہےتویہی چیز’’بین یدیہ،، کے بھی وہم ، وہم ،اور غیرمحفوظ،،ہونے  کی دلیل ہوگی ، اوراس بناپرحنفیہ کا’’ بين يديه ،،  کےلفظ سےاذان خطبہ کےامام کےسامنے منبر کےقریب دینے کی مشروعیت پراستدلال اوراس کےمتوارث ہونےپراحتجاج صحیح نہیں ہوگا۔ اس حدیث کےایک ٹکڑے کومحفوظ مان کر اس سے استدلال کرنا اوردوسرے ٹکڑے کوشاذ اورغیرمحفوظ کہہ کر رد کردینا درانجالیکہ دونوں ٹکڑوں کامدارمحمدبن اسحاق کی روایت پر ہے،غیرمعقول اوربعید ازانصاف ہے۔

سائب بن یزید کی و ہ حدیث جومسند احمد اورنسائی مین باین لفظ ہے:’’ كان بلا ل يؤذن إذا جلس رسو ل الله صلى الله عليه  وسلم  على المنبر يوم الجمعة فإذا نزل أقام ،،الحديث۔ اس سے شیخ نیموی کااس بات پراستدلال کہ حضرت بلا ل جمعہ کےدن اندرون مسجد آنحضورﷺ کےقریب اذان دیتے تھے مسجد کےدروازہ پراذان نہیں دیتے تھے،یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔اس لیے کہ یہ استدلال اس بات کےثبوت پرموقوف ہےکہ اقامۃ اورتکبیر کامحل امام کےپیچھے اوراس کےقریب پہلی صف میں ہے،لیکن محل اقامت کاامام کےپیچھے پہلی  صف  میں ہونا کسی شرعی دلیل سےثابت نہیں ہے،بلکہ بعض روایات سےاس کا خلاف  ثابت ہوتاہے،اورخود حنفی مذہب میں اقامت کااندرون مسجد امام کےپیچھے پہلی صف میں ہونا متعین نہیں ہے۔(فتاویٰ عالمگیری 1؍44،42 ) میں  ہے:’’ ویقیم  علی الأرض ، هكذا فى الفتنة ، وفى المسجد ، هكذا فى البحرالرائق، وإن كان المؤذن والإمام واحدا ، فإن أقام فى المسجد ، فالقوم لايقومون  مالم يفرغ  عن الإقامة ، وإن أقام خارج المسجد، فمشائخنا اتفقوا على أنهم لايقومون مالم يدخل الإمام المسجد،،.

اور ابن قدامہ مقدسی لکھتےہیں :’’ وَيُسْتَحَبُّ أَنْ يُقِيمَ فِي مَوْضِعِ أَذَانِهِ. قَالَ أَحْمَدُ: أَحَبُّ إلَيَّ أَنْ يُقِيمَ فِي مَكَانِهِ، وَلَمْ يَبْلُغْنِي فِيهِ شَيْءٌ إلَّا حَدِيثَ بِلَالٍ: " لَا تَسْبِقْنِي بِآمِينَ " يَعْنِي لَوْ كَانَ يُقِيمُ فِي مَوْضِعِ صَلَاتِهِ، لَمَا خَافَ أَنْ يَسْبِقَهُ بِالتَّأْمِينِ؛ لِأَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إنَّمَا كَانَ يُكَبِّرُ بَعْدَ فَرَاغِهِ مِنْ الْإِقَامَةِ، وَلِأَنَّ الْإِقَامَةَ شُرِعَتْ لِلْإِعْلَامِ، فَشُرِعَتْ فِي مَوْضِعِهِ، لِيَكُونَ أَبْلَغَ فِي الْإِعْلَامِ، وَقَدْ دَلَّ عَلَى هَذَا حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنَّا إذَا سَمِعْنَا الْإِقَامَةَ تَوَضَّأْنَا ثُمَّ خَرَجْنَا إلَى الصَّلَاةِ. إلَّا أَنْ يُؤَذِّنَ فِي الْمَنَارَةِ أَوْ مَكَان بَعِيدٍ مِنْ الْمَسْجِدِ، فَيُقِيمَ فِي غَيْرِ مَوْضِعِهِ، لِئَلَّا يَفُوتَهُ بَعْضُ الصَّلَاةِ.،، (المغنى 2/ 71 9).

حضرت بلا ل كى حديث ’’ لا تسبقنى بآمين ،، سنن ابى داؤد  میں منقطعا مروی ہے، حافظ فتح الباری 2؍263 میں لکھتے ہیں : ’’ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ لَكِنْ قِيلَ إِنَّ أَبَا عُثْمَانَ لَمْ يَلْقَ بِلَالًا وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ بِلَفْظِ أَنَّ بِلَالًا قَالَ وَهُوَ ظَاهِرُ الْإِرْسَالِ وَرَجَّحَهُ الدَّارَقُطْنِيُّ وَغَيْرُهُ عَلَى الْمَوْصُولِ،، انتهى.

اور عینی لکھتے ہیں :’’ هَذَا الحَدِيث مُرْسل، وَقَالَ الْحَاكِم فِي (الْأَحْكَام) : قيل إِن أَبَا عُثْمَان (عبدالرحمن بن ملى  النهندى ) لم يدْرك بِلَالًا، وَقَالَ أَبُو حَاتِم الرَّازِيّ: رَفعه خطأ، وَرَوَاهُ الثِّقَات عَن عَاصِم عَن أبي عُثْمَان مُرْسلا، وَقَالَ الْبَيْهَقِيّ: وَقيل عَن أبي عُثْمَان عَن سلمَان، قَالَ: قَالَ بِلَال، وَهُوَ ضَعِيف لَيْسَ بِشَيْء ،، (عمدةالقارى 6/49،48 ) –

خطابی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : ’’  يشبه أن يكون معناه أَن بِلَالًا كَانَ يقْرَأ الْفَاتِحَة  الكتاب فِي السكتة الأولى من سكتتي الإِمَام، أى سكتتى الإمام ، فَرُبمَا يبْقى عَلَيْهِ شَيْء مِنْهَا، وَرَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قد فرغ مِنْهَا فاستمهله بِلَال فِي التَّأْمِين بِقدر مَا يتم فِيهِ قِرَاءَة بَقِيَّة السُّورَة، حَتَّى ينَال بركَة مُوَافَقَته فِي التَّأْمِين. الثَّانِي: أَن بِلَالًا كَانَ يُقيم فِي الْموضع الَّذِي يُؤذن فِيهِ من وَرَاء الصُّفُوف، فَإِذا قَالَ: قد قَامَت الصَّلَاة، كبر النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، فَرُبمَا سبقه بِبَعْض مَا يَقْرَؤُهُ، فاستمهله بِلَال قدر مَا يلْحق الْقِرَاءَة والتأمين.(معالم السنن مع مختصر السنن للمنذرى 1/ 441 ) .

ہمارے نزدیک حدیث کی دوسری توجیہ راجح ہے۔ صحیح بخاری میں تعلیقا مروی ہے:’’کان أبوهريرة ينادى الأمام لا تفتنى بآمين ،، حافظ لکھتےہیں :’’ وصله عبدالرزاق عن ابن جريج عن عطاء قَالَ وَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ وَقَدْ قَامَ الْإِمَامُ فَيُنَادِيهِ فَيَقُولُ لَا تَسْبِقْنِي بِآمِينَ ، وَقَدْ جَاءَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مِنْ وَجْهٌ آخَرُ أَخْرَجَهُ الْبَيْهَقِيُّ مِنْ طَرِيقِ حَمَّادٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يُؤَذِّنُ لِمَرْوَانَ فَاشْتَرَطَ أَنْ لَا يَسْبِقَهُ بِالضَّالِّينَ حَتَّى يَعْلَمَ أَنَّهُ دَخَلَ فِي الصَّفِّ وَكَأَنَّهُ كَانَ يَشْتَغِلُ بِالْإِقَامَةِ وَتَعْدِيلِ الصُّفُوفِ وَكَانَ مَرْوَانُ يُبَادِرُ إِلَى الدُّخُولِ فِي الصَّلَاةِ قَبْلَ فَرَاغِ أَبِي هُرَيْرَةَ وَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَنْهَاهُ عَنْ ذَلِكَ وَقَدْ وَقَعَ لَهُ ذَلِكَ مَعَ غَيْرِ مَرْوَانَ فَرَوَى سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ مِنْ طَرِيقِ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِين أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ مُؤَذِّنًا بِالْبَحْرَيْنِ وَأَنَّهُ اشْتَرَطَ عَلَى الْإِمَامِ أَنْ لَا يَسْبِقَهُ بِآمِينَ وَالْإِمَامُ بِالْبَحْرَيْنِ كَانَ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ بَيَّنَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ مِنْ طَرِيقِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْهُ وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ قَوْلِ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ بِلَالٍ أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ مِنْ طَرِيقِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ بِلَالٍ،، إلى آخرماقال . (فتح 1/42).

اوراگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اقامت کامحل امام کےپیچھے صف اول ہے، توحنفیہ  کےنزدیک تخطی منہی عنہ کاارتکاب  اسی صورت میں ہوگا ، جبکہ مؤذن دروازہ مسجد پراذان  پوری کرنے کےبعد اسی وقت وہاں سےامام کےقریب پہلی صف میں آجائے۔اوراگر امام کےخطبہ ختم کرکے منبر سےاترنے کےبعد محل اذان سےچل کرامام کےپیچھے پہلی صف میں آئے توتخطی منہی عنہ کاارتکاب  نہیں ہوگا۔علاوہ بریں جنابلہ کےنزدیک   امام اورمؤذن تخطی کی ممانعت سےمطلقا مستثنی ہیں ۔اس تقریر کی بناپراذان عندالخطبۃ  اوراقامت  عندالنزول عن المنبر  دونوں کےمحل کاایک ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ پس شیخ نیموی کاسائب بن یزید کی مذکورہ حدیث کواس اذان کےندرون مسجد منبر کےپاس رسول اللہ ﷺ کےقریب دئیے جانے کے ثبوت میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔

’’ عندالمنبر ،، کالفظ سائب بن یزید کی کسی حدیث میں نظر سےنہیں گزرا۔ہاں بعض کتب فقہ حنفی میں ضرور موجود ہے اوروہ ان کےقصورفہم کانتیجہ ہے:’’ بین يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم  ، کےالفاظ سائب بن یزید کی حدیث میں بروایت محمدبن اسحاق موجود ہیں اور ہم بتاچکے ہیں کہ ’’ بین یدیہ ،، ’’ قدام ،، و’’ امام ،، کےمعنی ہے، اوردورنزدیک کویکساں شامل ہونے کی وجہ سے مبہم ہے، اوراس ابہام کی تعیین وتوضیح خود اسی روایت پر’’ علی باب المسجد ،، کےلفظ سےکردی گئی ہے۔

یہ دعویٰ ’’بین یدیہ ،،کا ’’ نزدیک ،، کامعنی حقیقی ہےاور’’ دور،، کامعنی مجازی ،محض بےبنیادہے، نحوولغت کی کسی بات سےثابت نہیں ہے ۔

عہدنبوی میں تحویل  قبلہ سےپہلے یعنی : جبکہ قبلہ نماز جہت شمال میں ( بیت المقدس)تھا مسجد نبوی کےتین دروازے تھے۔

ایک : بجانب مغرب جومصلی کےبائن جانب پڑتا تھا ، جس کانام ’’ باب عاتکۃ ،، تھا اورجس کااب ’’باب الرحمۃ  ،، کہتے ہیں اور’’ باب السوق ،، بھی ۔

دوسرا : بجانب مشرق جومصلی کےدائیں جانب پڑتا تھا ، آنحضرت ﷺ اسی دروازہ سےمسجد میں داخل ہوتےتھے، اس کانام ’’باب آل عثمان ،، اوراب اس کو’’باب جبریل ،،کہتے ہیں ۔

تیسرا دروازہ : بجانب جنوب مسجد کےپائیں یعنی: پچھلے اورموخرحصہ میں مصلی کےپیچھے پڑتا تھا ،اور جس کوتحویل قبلہ کےبعد آنحضرت ﷺ نےبندکرادیا تھا۔

شمالی جانب قبلہ ( بیت المقدس ) تھا ، ادھر کوئی دروازہ نہیں تھا ۔

شاہ عبدالحق دہلوی نے’’ جذب القلوب ،،میں تحویل قبلہ سےپہلے کی ہئیت کوبیان فرمایا ہے۔ اسی حالت کوسمہودی ہے’’ وفاء  الوفاء ،، 1؍ 336 میں یوں بیان کیا ہے....’’وجعل قبلة  إلى بيت المقدس ، وجعل له ثلثة أبواب ، باب فى مؤخره، أى وهو فى جهىة القبلة اليوم ، وباب عاتكة ، الذى يدعى باب عاتكة ، ويقال باب الرحمة ، والباب  الذى يدخل منه رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو باب آل عثمان اليوم ، وهذان البابان لم يغير بعد أن صرفت القبلة ،،....... نيز 2/ 286 میں لکھتے ہیں : ’’  تقدم  أن النبى صلى الله عيله وسلم جعل للمسجد الشريف ثلثة أبواب ، بابا فى مؤخره ، والباب الذى يدعي باب عاتكة ، ويقال له باب الرحمة ،والباب الذى كان يدخل منه النبى صلى الله عليه وسلم وهو باب آل عثمان ،،انتهى .

نقشہ نظری اس طرح ہوگا :       

تحویل قبلہ کےبعد جنوبی دروازہ بند کردیا گیا اوراب قبلہ کی یہ دیوار بےدروازہ کےرہ گئی اور اس کی بالمقابل شمالی جانت کی دیوار میں ایک دووازہ قائم کردیا گیا ۔مسجد کےکل دروازےاب بھی تین رہے۔

سمہودی وفاء والوفاء 1؍ 337 میں لکھتے ہیں : ولما صرفت القبلة سد النبي صلّى الله عليه وسلّم الباب الذي كان خلفه وفتح هذا الباب، وحذاء هذ الباب- أي ومحاذيه- هذا الباب الذي سد. وعبر ابن النجار عن ذلك بقوله: ولما صرفت القبلة سد الباب الذي كان خلفه وفتح بابا حذاءه. قال المجد: أي تجاهه، انتهى.

وعن عبد الله بن عمر قال: كان مسجد رسول الله صلّى الله عليه وسلّم في زمانه من اللبن، وسقفه من غصن النخل، وله ثلاثة أبواب: باب في مؤخره، وباب عاتكة وهو باب الرحمة، والباب الذي كان يدخل منه وهو باب عثمان، وهو الذي يسمى اليوم باب جبريل، ولما صرفت القبلة سد الباب الذي خلفه وفتح الباب الآخر،، ملاحظہ ہونقشہ نظری ص:

اس نقشہ کےمطابق جہت جنوب میں قبلہ کی دیوار سےلگے ہوئےمنبر پرکھڑے ہوکر خطبہ دینے یامنبر پربیٹھنے کی حالت میں شمالی دروازہ اوراس پراذان دینے والا خطیب کےمقابل اورسامنے ہوگا اوراس پر’’ کان یؤذن بین یدی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی  باب المسجد ،، بلاشبہ بالکل  ٹھیک صادق آئے گا۔ حدیث مذکورمیں تحویل قبلہ کےبعد کی صورت حال کاتذکرہ ہے، مولانا خلیل احمد سہار نپوری نےبھی اس حدیث کواسی حالت پرمحمول کیا ہےجیسا کہ ’’ بذل المجہود ،، 2؍180 سےان کی منقولہ عبارت سےصاف واضح ہے۔

یہ عبارت ص :۔۔۔۔۔۔ پرہم ذکرکرآئے ہیں ۔

تحویل قبلہ کےبعد مسجد کانقشہ نظری 2 یوں ہوگا :

حضرت عمر ﷜ کےزمانہ میں مسجد نبوی میں توسیع کی گئی ، توانہوں نےتین دروازوں کاافاضہ کیا۔ ایک مشرق میں  جس کو ’’باب النساء ،، کہتے ہیں ۔ دوسرا مغرب میں’’باب السلام ،، جس کو’’ با ب مروان ، ، بھی کہاجاتاہے۔تیسرا دروازہ شمال میں۔

اس طرح اب شمال، مشرق ، مغرب ہرجہت میں دو دودروازے ہوگئے اورمسجد کےکل چھ دروازے ہوئے جن میں تین قدیمی آنحضرت ﷺ کےقائم کردہ تھے اورتین نئے جن کو حضرت عمر ﷜ نےقائم کیا۔

سمہودی لکھتے ہیں :’’ وجعل له ستة أبواب: بابين عن يمين القبلة، وبابين عن يسارها، وبابين خلف القبلة،، (وفاء الوفاء : 2/ 495 ).

اورلكھتےہیں :’’ وجعل أبوابه ست أبواب على ما كان على عهد عمر رضي الله عنه: باب عاتكة، أي المعروف بباب الرحمة، والباب الذي يليه أي يقرب من محاذاته في المشرق، وهو باب النساء، وباب مروان: أي المعروف بباب السلام، والباب الذي يقال له باب النبي صلّى الله عليه وسلّم: أي المعروف بباب جبريل، وبابين في مؤخر المسجد،، (2/507 ) .

اورلکھتے ہیں :’’ وقد قدمنا في زيادة عمر رضي الله عنه أنه جعل الأبواب ستة: بابين عن يمين القبلة، وبابين عن يسارها، وبابين خلف القبلة، وأنه لم يغير باب عاتكة ولا باب عثمان، بل زاد في جهة باب عاتكة الباب الذي عند دار مروان وهو باب السلام، وزاد بعد باب عثمان الباب المعروف بباب النساء، فهذان البابان هما المزيدان في المغرب والمشرق.

وسبق أيضا أن عثمان رضي الله تعالى عنه أقر هذه الأبواب على حالها، ولم يزد فيها شيئا،، ايضا (2/ 686 ) ۔

                                اب نقشہ نظری 3 حسب ذیل ہوگا:

صحیح بخاری کی دروازہ مسجد سےمتعلق دوحدیثوں کےدرمیان بظاہر تعارض معلوم ہوتاہےموقع کی مناسبت سےطلبہ کےفائدہ کے لیےدونوں روایتوں کےدرمیان واقع اختلاف وتعارض  پرتنبیہ اوراوس کےدفع کی صورت کاذکرکرنا بہتر معلوم ہوتاہے۔’’باب عاتکۃ ،، کو ’ ’ باب الرحمہ ،، کیونکہ کہا گیا اس کوتوجیہ سمہودی لکھتےہیں :’’ فلم أر في كلام أحد بيان السبب في تسميته بذلك، وسألت عنه من لقيته من المشايخ فلم أجد عند أحد منهم علما من ذلك، ثم ظهر لي معناه بحمد الله تعالى، وذلك أن البخاري روى في صحيحه عن أنس بن مالك أن رجلا دخل المسجد يوم الجمعة من باب كان نحو دار القضاء ورسول الله صلّى الله عليه وسلّم قائم يخطب، فاستقبل رسول الله صلّى الله عليه وسلّم قائما، ثم قال: يا رسول الله، هلكت الأموال، وانقطعت السبل، فادع الله يغثنا، فرفع رسول الله صلّى الله عليه وسلّم يديه ثم قال: اللهم أغثنا، اللهم أغثنا، اللهم أغثنا، قال أنس: ولا والله ما نرى في السماء من سحاب ولا قزعة، وما بيننا وبين سلع من بيت ولا دار، قال: فطلعت من ورائه سحابة مثل الترس، ولما توسطت السماء انتشرت ثم أمطرت، فلا والله ما رأينا الشمس سبعا، ثم دخل رجل من ذلك الباب في الجمعة- يعني الثانية- ورسول الله صلّى الله عليه وسلّم قائم يخطب- الحديث- بطوله، وسنبين في باب زياد- وهو الذي يلي هذا- أن دار القضاء كان محلها بين باب الرحمة وباب السلام، وقد تقرر أنه لم يكن للمسجد في زمنه صلّى الله عليه وسلّم في هذه الجهة إلا الباب المعروف بباب الرحمة؛ فظهر أن هذا الرجل الطالب لإرسال المطر وهو رحمة إنما دخل منه، وقد أنتج سؤاله حصول الرحمة، وأنشأ الله السحاب الذي كان سببا فيها من قبله أيضا؛ لأن سلعا في غربي المسجد، فسمي والله أعلم بباب الرحمة لذلك، لكن في رواية البخاري عن أنس أيضا أن رجلا دخل يوم الجمعة من باب كان وجاه المنبر، ومقتضاها أنه دخل من الباب الذي كان في شامي المسجد؛ لقرب إطلاق مواجهته للمنبر عليه، لكن ذلك الباب ليس نحو دار القضاء، فليجمع بين الروايتين بأن الواقعة متعددة كما اقتضاه كلام بعضهم، أو بأنه وقع التجوز في إطلاق كون ذلك الباب وجاه المنبر، أو بأن باب الرحمة كان كما قدمناه في آخر جهة المغرب مما يلي الشام، فجاء ذلك الداخل من جهته ودخل منه، ثم رأى أن قيامه بين يدي النبي صلّى الله عليه وسلّم وهو على المنبر لا يتم له إلا بتخطي الصفوف، فعرج إلى الباب الآخر المواجه للمنبر، لغلب إطلاق باب الرحمة على الباب الذي في جهة مجيئه؛ لاعتضاده بما تقدم من مجيء السحاب من قبله، والله أعلم.،، (وفاء الوفاء 2/ 697. 698 ) .  املاه عبيدالله الرحمانى المباركفورى جمادى الاولى /1390ھ

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 375

محدث فتویٰ

تبصرے