السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جمعہ کےدن مسجد کےاندر امام کےسامنے صرف امام سےدوہاتھ دورکھڑے ہوکراقامت کی طرح آہستہ آواز سے خطبہ کی اذان دینا کیسا ہے؟ اس کےمتعلق امام ابوحنیفہ کاکوئی قول کسی فقہ کی کتاب میں موجود ہے۔ اگرہےتوکس کتاب میں ؟کیا اذان مذکورہ حضرت عثمان سےثابت ہے؟
(میزان الرحمن آسام )
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض مقامات میں تومنبر سےپاؤں کاانگوٹھاملا کر آہستہ اذان دی جاتی ہے،بہرحال ان دونوں صورتوں کےموافق امام ابوحنیفہ کاقول صریح مجھ کو نہیں معلوم ہے۔البتہ ہدایہ 8؍151 میں ہے:
’’ إذا صعدالامام جلس ، وأذن المؤذنون بين يدى المنبر ،، اورعالمگیری میں 1؍13میں ہے:
’’ ؐذا جلس عل المنبر اذن بین یدیہ ،، اوردرمختار میں ہے’’ ويوذن بين يديه اى الخطيب،إذا جلس على المنبر ، ، وهكذا فى عامة كتب الفقه الحنفى ، وفهم الحنفية من هذه العبارات ، أن الخطيب إذا جلس على المنبر ، أذن المؤذنون أمام الخطيب ، واستقبله عندالمنبر ، ولا يبعد المؤذن عن المنبر ، بحيث يكون على المنارة والمأذنة ، أو على باب المسجد أوعلى السطح ، بل يكون المؤذن قريبا من الخطيب عندالمنبر ،، .
بہرحال یہ دونوں صورتیں بدعت ہیں اور حدیث ذیل کےخلاف ہیں ’’ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، ، ( ابوداؤد ، والطبرانى )
شوق نیمو ی مرحوم نے’’على باب المسجد ،، کےلفظ کوغیر محفوظ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہےاورمنبر کےقریب اذان کا جواز ثابت کرنےکےلیے مضحکہ خیر گفتگوکی ہے من شاء الوقوف عليه فليرجع الى آثارالسنن .
اذن ثانی کایہ مروجہ مخصوص طریقہ حضرت عثمان سےثابت نہیں ہے۔بل هو مما اخترعه الحنفية .(ترجمان فروری 1957ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب