السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گاؤں اوردیہات میں جمعہ جائز ہےیانہیں ؟ اگر جائز ہےتوکتنے آدمیوں کاہوناضروری ہے؟ حنفی گاؤں میں جمعہ پڑھنے پراعتراض کرتےہیں ، نیز شہر میں جمعہ کےبعد ظہر احتیاطی پڑھنے کےقائل ہیں ۔ کیا ان کااعتراض اورقول ہے؟کیا اقامۃ جمعہ کےلیے مسلمان امیر یابادشاہ کاہونا شرط اورلازم ہےجیساکہ حنفی کہتےہیں ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن وحدیث سےیہی ثابت ہےکہ ہرجگہ اورمقام پراقامت جمعہ درست ہےاورچھوٹے اوربڑےگاؤں کی تفریق نہیں آئی ہےکہ شہر اورقصبہ اوربڑے گاؤں میں توجائز ہواور چھوٹے گاؤں میں ناجائز ہو۔ ارشاد ہے:﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّه...﴾ (الجمعة : 9 ) او ر آنحضرت ﷺ فرماتےہیں:’’ الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً: عَبْدٌ مَمْلُوكٌ، أَوِ امْرَأَةٌ، أَوْ صَبِيٌّ، أَوْ مَرِيضٌ "،، (ابوداؤد : عام نمازوں سےسوا اقامت جمعہ کےلیے صرف یہ شرائط ہیں :
(1) جماعت : اورجماعت دوآدمیوں سےبھی حاصل ہوجاتی ہے۔آنحضرتﷺ فرماتےہیں :’’ الاثنان فمافوقهماجماعة ،، پس دو
مرد سےزیادہ عدد کی شرط نہیں ہے۔
(2) بلوغ ۔ (3) حریت ۔ (آذاد ) (4) ذکوریۃ (5) صحت وعدم مرض ۔
علماء حنفیہ نےجمعہ کےدرست ہونے کےلیے جویہ شرط لگائی ہےکہ مصرجامع ہے۔تویہ کسی مرفوع صحیح حدیث سےثابت نہیں ہے۔
اسی طر ح جمعہ کی فرضیت کےلیے مسلمان سلطان یااس کےنائب کی شرط بھی بےدلیل اوربےاصل ہے۔ خود محققین حنفیہ نےبھی اس شرط کوبےاصل اورلغو ٹھہرایا ہےجیسا کہ مولوی عبدالعلی بحرالعلوم لکھنوی حنفی نے’’ارکان اربعہ ،،میں بسط وتفصیل سےاس کی تردید کی ہے۔پس جمعہ کی نماز جیسے شہر اورقصبہ اورپڑے گاؤں میں پڑھنی فرض ہے، اسی طرح چھوٹے سےچھوٹے گاؤں میں بھی ضروری ہے،جہاں بالغ آذاد وتندرست مردکم از کم دوبھی موجود ہوں ،کیوں کہ قرآن وحدیث صحیح میں اس کےعلاوہ شہر یابادشاہ کی شرط نہیں لگائی گئی ہے،جوان دونوں کی شرط لگاتاہےوہ شریعت میں اپنی طرف سے پیوندلگاتا ہے۔ جمعہ کی نماز پڑھنے کےبعد احتیاطاًظہرچاررکعت پڑھنی بدعت ہے۔علماء حنفیہ بھی اس کوبدعت کہتےہیں ۔تفصیل ’’ اطفاء الشمعة ،، اور ’’ الجمعة فى القرية ،،میں دیکھئے ۔ (محدث ج 2 ش : 2 جمادی الآخر 1366ھ؍مئی 1947ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب