سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(229)سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ رکھو

  • 17251
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1440

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ رکھو 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ رکھو

اس مسئلہ کی بابت چند باتیں قابل توجہ ہیں جن سےاس مسئلہ کافیصلہ ہوسکتا ہے:

(1)  پہلے ہاتھ رکھنے ، یا پہلے گھٹنے رکھنے کی ، دونوں حدیثوں میں من حیث السند کون راجح ہے؟۔

(2)   حوقدحیں سجدہ جاتے وقت پہلے ہاتھ رکھنے کی ، حدیث پرکی گئی ہیں وہ درحقیقت قدح ہیں ؟ یاان کاخیال ہی خیال ہے؟

(3)   کیا پہلے ہاتھ رکھنے کی حدیث سلف اہل حدیث میں معمول بہ تھی ؟اوراس پرتعامل کی حالت کیا تھی ؟۔

(4)  پہلے گھٹنے رکھنے کی حدیث پرجوقدحین اورجرحین کی گئی ہیں وہ دفع کی گئی ہیں۔

(5)  کیا نسخ کی بحث یہاں آسکتی ہے؟ اورنسخ کےلیے کیا کیا شرائط ہیں ؟

پہلی بحث : من حيث السند اسی حدیث کوترجیع ہےجس میں سجدہ جاتے ہوئے ہاتھ رکھنے کاحکم ہے۔ پہلے وہ حدیث بتمامہ مع ترجمہ نقل کی جاتی ہے:

(1)حدثنا سعيد بن منصور نا عبدالعزيز بن محمد حدثنى محمد بن عبدالله بن حسن عن ابى الزناد عن الأعرج عن أبى هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا سجد احدكم فلايبرك كما يبرك العير وليضع يديه قبل ركبتيه ،، .

(2)   حدثنا قتيبة بن سعيد نا عبدالله بن نافع عن محمد بن عبدالله بن حسن عن أبى الزناد عن الأعرج عن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:يعمد أحدكم ، يبرك كما يبرك الجمل ،،

یعنی :’’ ابوہریرہ سےروایت ہےکہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نےکہ: جب تم میں سےکوئی سجدہ کرلے ، تو چاہیے کہ پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کورکھے،اوراونٹ کی طرح (پہلے اپنے گھٹنے رکھ کر) نہ بیٹھے ،کیا تم میں سے کوئی قصد کرتا ہےاونٹ کی طرح(پہلے گھٹنے رکھ کر ) بیٹھنے کا ،، (سوایسا نہیں کرنا چاہیے )۔

اس حدیث کو ابوداؤد ، ترمذی ،  نسائی ، دارقطنی ، ابن خزیمہ اورامام احمد وغیرہ نےروایت کیا ہے، اس حدیث کی بابت حافظ ابن حجر فتح الباری ( 2؍291) وبلوغ المرام (ص:108 ) میں لکھتے ہیں :’’  أخرجه الثلاثة ، وهو أقو من حديث وائل بن حجر رضى الله عنه : رأيت رسو ل الله صلى الله عليه وسلم إذا سجد وضع ركبتيه قبل يديه ،  أخرجه الأربعة ، قال : للأول شاهد من حديث ابن عمر ، صححه ابن خزيمة ، وذكره البخارى معلقاً موقوفا ،، .

یعنی :’’ پہلے ہاتھ رکھنے کی حدیث کوائمہ ثلاثہ ابوداؤد ، نسائی ،ترمذی ، نے روایت کیا ہے،اور یہ حدیث سجدہ جاتے ہوئے پہلے ہاتھ رکھنے کی ( جوابوہریرہ سےمروی ہے)وائل بن حجر کی حدیث سےاقوی ہے،جس میں یہ ذکر ہےکہ وہ کہتے ہیں گہ :میں نےرسول اللہ ﷺ  کوسجدہ جاتےہوئے پہلے گھٹنے رکھتے ہوئےدیکھا ۔اس لیے کہ پہلی حدیث (یعنی سجدہ میں پہلے ہاتھ رکھنے ) کےلیے ابن عمر کی حدیث سےایک شاہد موجود ہےجس کی تصحیح ابن خزیمہ نےکی ہے،جس کوامام بخاری نےصحیح بخاری میں تعلیقات میں روایت کیا ہے ،،۔

صحیح بخاری میں ’’ باب يهوى بالتكبرحين يسجد . وقال نافع : كان ابن عمر يضع يديه قبل ركبتيه ،، اور فتح البارى ،،  (2/290 ) میں ہے:’’ وصله ابن خزيمة والطحاوى وغيرهما من طريق عبدالعزيز الداراور دى عن عبيدالله بن عمر عن نافع بهذا ، وزاد فى آخر ه :ويقول:كان النبى صلى الله عليه وسلم  يفعل ذلك ،،.

یعنی : ’’ امام بخاری باب قائم فرماتے ہیں ، اس امر کاکہ سجدہ جاتےہوئے تکبیر کےساتھ جھکے ۔اور جھکنے کی کیفیت یہ ہوکہ پہلے ہاتھ رکھے ۔جیسا کہ عبداللہ ابن عمر کرتےتھے۔عبداللہ بن عمر کےاثرکو( جومعلق ہے) ابن حزیمہ اورطحاوی وغیرہ نےموصول کیا ہے، جس کےاخیر میں یہ جملہ بھی ہےکہ : عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ :میں نے سجدہ جاتے ہوئےجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہلے ہاتھ ہی رکھتے  ہوئے دیکھا ،، ۔

ایک  دوسری جگہ فتح الباری (2؍291 ) میں ہے:’’ والذى يظهر أن أثر ابن عمر من جملة الترجمة ، فهومترجم به لا مترجم له ، والترجمة قد تكو ن  مفسرةلجمل الحديث ، وهذا منها،، .

یعنی :’’ جوبات بعدتدبر وبحث کےظاہرہوتی ہے،وہ یہ ہےکہ ابن عمر کا اثر(جوامام بخاری  نے باب کےنیچے کرکیا ہے) ترجمہ  باب میں داخل  ہے۔ ترجمہ باب سےخار ج نہیں ، اورترجمہ الباب کبھی مجمل حدیث کامفسرہوتا ہے،اوریہاں بھی ایساہی ہے،،یعنی : جوطویل حدیث اس باب کےثبوت میں آگے آتی ہےاس میں سجدہ جاتےہوئے کی کیفیت مجمل ہے، امام موصوف نےاس باب کے ذریعہ اس کی تفسیر کردی کہ پہلے ہاتھ رکھنا چاہیے ۔حدیث طویل کامجمل ٹکڑا یہ ہےکہ ’’ ثم يقول:أكبرحين يهوى ساجد ا،، یعنی :پھر اللہ اکبر کہتے جب سجدہ جانے کوجھکتےاورہاتھ پہلے رکھتے کما كان يفعل ابن عمر .

عن المعبود (3/50) میں ہے:’’ قال الحافظ ابن سید الناس : سندالناس:أحاديث وضع اليدين قبل الركبتين أرجح ، وقال : ينبغي أن يكون حديث أبى هريرة داخلا فى الحسن على رسم الترمذى لسلامة رواته من لجرح،، .

یعنی :’’ حافظ سیدالناس نےبھی حافظ ابن حجر کی طرح اسی  حدیث کوراجح بتایا ، جس میں قبل گھٹنوں کےہاتھوں کےرکھنے کاذکر ہے۔

وہ کہتےہیں کہ یہ حدیث ترمذی کی اصطلاح  کےمطابق بھی حسن ہونی چاہیے ،کیوں کہ اس کےرواۃ جرح سےسالم ہیں ،، ۔

دیکھو حافظ ابن حجر العسقلانی اور  حافظ ابن سیدالناس نےمن حیث السند اسی حدیث کومع دلیل ترجیح دی اور اقوی بتایا ، جس میں سجدہ جاتے  وقت پہلے ہاتھوں کےرکھنے کےکاحکم ہے۔ اورامام المحدثین امام بخاری نےبھی سجدہ جاتےہوئےتکبیر کہنے کی حدیث (جومجمل تھی ) کی تفسیر اسی سےکی ۔ یہ اس حدیث سے جس میں سجدہ جاتےہوئے گھٹنے رکھنے کاذکر ہے۔ اس سےمعلوم ہواکہ امام بخاری نے بھی اسی کو اقوی ٹھہرایا ۔

عون المعبود ( 3؍ 50 ) میں ہے’’وقد أخرجه الدارقطنى بإسناد حسن ، والحاكم فى المستدرك مرفوعا بلفظ : إن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا سجد يضع يديه قبل ركبتيه ، وقال : على شرط مسلم ،، .

یعنی :’’ سجدہ جاتے ہوئے پہلے ہاتھ رکھنے کی حدیث کوحاکم اوردارقطنی نےبھی روایت کا ہے۔ دارقطنی نےباسناد حسن روایت کی ہے۔ اورحاکم نے’’ علی شرط مسلم ،،کہا ہے،،۔

خلاصہ یہ کہ اس مضمون کی حدیث باختلاف سند ابوداؤد،ترمذی ،نسائی ، حاکم ،احمد،طحاوی ، ابن خزیمہ اوردارقطنی وغیرہ نےروایت کیا ہے۔ اس بیان سےحدیث مذکور کاراجح واقوی ہونا ظاہر ہوگیا ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 334

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ