السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک جدید تعلیم یافتہ نوجوان دینی تعلیم اوردینی تحریک سےمنسلک کےذہن میں تردد پیدا ہواکہ جس مہربان آقا نے سفر میں قصر کی اجازت بخشی ہےاس عالم مرض میں قصر کی اجازت ضروری ہوگی ، عام مرض کی حالت میں نہ ہو،لیکن ایسے حالات جب نیم عشی اورشدت مرض کی کیفیات ہوں اس میں توقصر کی ضرور اجازت ہوگی ؟ عبدالمتین ،مجلہ نانپارہ ، ضلع بہرائچ
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شب معراج میں مغرب کےعلاوہ بقیہ چار نمازیں صرف دودو رکعت فرض کی گئی تھیں ، خواہ حضر میں ہو یاسفر میں ۔ ہجرت کے کچھ دنوں بعد مدینہ میں مغرب اورفجرکےعلاوہ بقیہ تین نمازوں میں دودورکعت کا اضافہ کرکے چارچاررکعات کردیا گیا ، حضرت میں ہو یا سفر میں ۔ پھر جب آیت قصر فی السفر نازل ہوئی توسفر میں رباعی نمازوں میں دورکعت کی تحفیف کردی گئی ۔اس طرح سفر کی فرض نمازوں کی تعداد اپنی ابتدائی اصلی حالت پرگیا رہ رکعت کردی گئی اورحضر کی فرض نمازوں کی تعداد سترہ رکعت ہی رہی ۔
بحالت سفر ، مسافر کےخارجی حالات اورسفر کی دشوار یوں جیسے :پڑاؤ اورقیام کےوقت کی تنگی اورمنزل مقصود تک پہنچے کی اوروہاں سےواپسی کی جلد ی وغیرہ کاتقاضہ یہ ہےکہ رکعتوں کی تعداد میں کمی کردی جائے ،اور جمع بین الصلاتین حقیقی کی اجازت دے دی جائے ۔ چنانچہ سفر کی مشقتوں اورزحمتوں کالحاظ کرتے ہوئے ایسا ہی کیا گیا ،اوربعد میں مطلق سفر میں مذکورہ رعایت اورتحفیف باقی رکھی گئی ،چاہے مذکورہ دشوارایاں پائی جاویں یانہ پائی جاویں ۔
بحالت مرض ، مریض کی ذاتی ،جسمانی حالت کےعلاوہ ایسا کوئی خارجی سبب نہیں پایاجاتا ، کہ جس کی وجہ سےاس کی رباعی نماز میں قصر کی اجازت دی جائے ،البتہ اس کی ذاتی جسمانی حالت کاتقاضہ ،یہ ہے کہ نماز کی ادائیگی کی ہئیت اورشکل میں اس کےلیے رعایت اورتخفیف اورآسانی کردی جائے ، چنانچہ ایسا ہی کیا گیاہے۔کھڑے ہوکرنہ پڑھ سکتا ہوتو بیٹھ کرپڑھے ، تربع (چہارزانو یعنی :آلتی پالتی مارکر )یا افتراش یا تورک یابیٹھنے کی جوکیفیت اس کےلیے آسان ہواختیار کرے،رکوع میں کچھ جھک جائے اورسجدہ میں پیشانی زمین پررکھے ، اوراگر اس پرقدرت نہ ہو ،توسجدہ کےلیے رکوع سےکچھ زیادہ جھک جائے ، اور اگر کسی طرح بھی بیٹھ کر نماز پڑھنے پرقدرت نہ ہو، تو دائیں پہلو پرلیٹ کرادا کرے درآنحالیکہ سرشمال میں اور دونوں پاؤں جنوب میں ہوں،اور چہرہ قبلہ کی طرف ہو۔اور اگر اس طرح بھی نمازپڑہنے پرقدرت نہ ہو ،تو چت لیٹے لیٹے نماز پڑھے ، اس طرح پر کہ دونوں پاؤں قبلہ کی طرف ہوں،اورسرمشرق کی جانب اورسر کےنیچے کوئی تکیہ رکھ لیا جائے ، تاکہ چہرہ فی الجملہ قبلہ کی طرف ہوجائے ، اوران دونوں حالتوں میں رکوع وسجدہ کےلیے سراورابروکااشارہ اورنیت کافی ہوگی ۔لیکن رباعی نمازیں ہرحال میں چارہی رکعت رہیں گی ۔ کیونکہ حضر میں مریض کےلیے رکعتوں کی تخفیف کاکوئی مقتضیٰ نہیں پایاجاتا۔بےہوشی کی حالت میں چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کےمسئلہ میں ائمہ کااختلاف ہے،امام شافعی رحمہا اللہ فرماتےہیں کہ :،کسی بھی ایک نماز کاپوراوقت اگربےہوشی میں گزر جائے تواس نماز کی قضا ضروری نہیں ہے، اوراگر کسی نماز کےجزء وقت میں ہوش آگیا تواس نماز کی قضا لازم ہوگی ۔ اورامام احمد فرماتے ہیں کہ : خواہ کتنی بھی نمازیں بےہوشی کی حالت میں گزر جائیں سب کی قضا ضروری ہے۔اورامام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ : اگر پانچ یااس سےکم نمازیں بےہوشی کی حالت میں گزر یں تو ان سب کی قضا ضروری ہوگی اوراگر پانچ سےزیاہ یعنی : چھ یااس سےزیادہ نمازیں بحالت بےہوشی گزریں توسب کی قضا ساقط ہوجائے گی ۔
اس مسئلہ میں کوئی اعتبار مرفوع حدیث موجود نہیں ہے،صرف صحابہ اورتابعین کےفتاویٰ مروی ہیں اوروہ بھی مختلف ،اس لیے ائمہ کی رائیں اورفتاوے بحالت ہیہوشی فوت شدہ نمازوں کی قضا کےبارے میں مختلف ہوگئے ۔مفصل بحث ’’المغنی ،،لابن قدامہ اور ’’ التعليق المجد على موطأ محمد ،، میں ملاحظہ فرمائی جائے ۔املاہ : عبیداللہ الرحمانی المبارکفوری 7؍5؍ 1398 (افکار عالیہ مؤناتھ بھنجن ج: 3؍ش:4؍1 اکتوبر تادسمبر 2006ء؍رمضان تاذی الحجہ 1427ھ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب