السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص عشاء کی نماز کے وقت وتر پڑھ لیتا ہے اور قیام اللیل کے وقت جاگ اٹھتا ہے اور نماز تہجد گزارنا چاہتا ہے دلائل وبراہین کی روشنی میں جواب مقصود ہے آیا وہ نماز تہجد ادا کر سکتا ہے یا نہیں اگر کر سکتا ہے تو اس کی صورت کیا ہو گی یعنی وتر وہی آغاز رات والے کفایت کریں گے یا بعد میں پھر ادا کرنا پڑیں گے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہﷺ سے رات کے تینوں حصوں میں تہجد ادا کرنا ثابت ہے اس لیے تہجد پہلی درمیانی اور آخری رات ادا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں جس انسان کو پچھلی رات جاگنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے وہ بلاخوف وخطر عشاء کے فوراً بعد تہجد ادا کر لے وتر پڑھ لے پھر سو جائے بہرحال تہجد رات کے کسی حصہ میں بھی ادا کی جائے وتر آخر میں ہونے چاہئیں کیونکہ رسول اللہﷺ کی صحیح حدیث ہے کہ وتروں کو نماز (تہجد ، تراویح ، قیام اللیل ، قیام رمضان اور صلاۃ اللیل) کے آخر میں رکھو ۔(مسلم باب صلاۃ اللیل مثنی مثنی والوتر رکعۃ من آخر اللیل)البتہ صحیح مسلم(بحوالہ مشکوۃ۔کتاب الصلاۃ باب الوتر الفصل الاول) کی ایک حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ وتروں کے بعد بھی دو رکعت نماز پڑھ لیا کرتے تھے جس سے پتہ چلتا ہے اگر کوئی صاحب وتر پڑھ کر سو گئے پھر جاگ پڑے تو وہ تہجد اور صلاۃ اللیل ادا کر سکتے ہیں آخر وتروں کے بعد دو رکعت پڑھنے سے بھی وتر تو آخر میں نہیں رہتے بہر کیف بہتر یہ ہے کہ وتر آخر میں پڑھے تہجد خواہ پہلی رات ہی کیوں نہ پڑھنی پڑے۔ بعض لوگ وتر پڑھ کر سو جاتے ہیں پھر اگر انہیں جاگ آ جائے تو وہ پہلی رات پڑھے ہوئے وتروں کو ایک اور رکعت پڑھ کر توڑتے ہیں پھر تہجد پڑھتے ہیں اور آخر میں پھر تیسری مرتبہ وتر پڑھتے ہیں یہ طریقہ رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب