السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی جوبہت عرصے سےیاایک سال سے یاتھوڑے دن سےنماز اوروزہ نہیں ادا کرتا ہےاب اسے بہت افسوس ہوا اور نما ز اورروزہ اداکرنے لگا۔ کیا اس کےذمہ فوت شدہ نمازوں اور روزوں کی قضا ضروری ہے؟ یاخدا سےمعافی مانگ کرآئندہ مسلسل نماز اورروزہ ادا کرنے لگے تویہی کافی ہے؟ اگر قضا کرنے کی ضرورت ہےتوکس طرح ؟.................. حمزہ ، پالگھاٹ ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہاں تمام فوت کردہ نمازوں اور روزوں کی قضا ضروری اورلازم ہے۔ یہی مذہب ہےاکثر علماء امت کا ۔ امام ابن تیمیہ لکھتےہیں :’’أمامن كان عالمابوجوبها ، وتركها بلاتأويل ، حتى خرج وقتها المؤقت ، فهذا يجب عليه القضاء عند الأيمة الاربعة ، وذهب طائفة منهم ابن حزم وغيره إلى أن فعلها بعد الوقت لايصح من هولاء ، وكذلك قالوا فى من ترك الصوم متعمدا ،، ( فتاوى شيخ الاسلام 2/ 240 ).وقال العلامة الشوكانى فى الدررالبهية : ’’ إن كان الترك عمداً لالعذر ، فدين الله أحق أن يقضى ،،. قال العلامة البوفالى فى الروضة الندية ، 1/ 200: ’’ قد اختلف أهل العلم فى قضاء الفوائت المذكورة لالعذر ، فذهب الجمهور إلى وجوب القضاء ، وذهب داودالظاهرى وابن حزم وبعض اصحاب الشافعي إلى أنه لاقضاء على العامد غير المعذور ن بل قد باء بإثم ماتركه من الصلوة ،، انتهى ، امام ابن حزم نے ’’محلی ،، میں قائلین وجوب قضا کےخلاف جواعتراضات اوردلائل پیش کیےہیں ، ان سےاطمینان قلب اورتشفی نہیں ہوتی ،(ولعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا )
چھوڑ ے ہوئے روزوں کی قضاء متفرق کرکے رکھے یاپے درپے لگاتار بغیر تفریق کے۔دونوں طرح جائزہے ، قضاء نماز کی یہ صورت ہےکہ روزانہ ہروقتی فرض نماز ادا کرنے سےپہلے یابعد میں چھوڑی ہوئی فرض نماز اداکرلے ۔ ( محدث دہلی ج :9ش :12ربیع الاول 1362ھ؍اپریل 1942ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب