السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیافرماتے ہیں علمائے دین متین حسب ذیل مسلک کےبارے میں کہ بوقت اختتام دعا منہ برہاتھ ملتے وقت ابوداؤد کی حدیث: ’’ من كان آخركلامه لا اله إلا الله دخل الجنة ،،( کتا ب الجنائز باب فی التلقین (3116 ) 3؍ 486 ) سے استنباط كرتا هوا" اجعل آخركلامنا لا اله الا الله ،، يا پورا ہ کلمہ کہنا جائز ہوگا یا نہیں ؟ مدلل بیان فرمائیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) دعا کےبہت سےآداب ہیں جن کےدعا کےوقت اختیا ر کرنے سےدعا کی قبولیت کی بہت امید ہوتی ہےاوربیشتر آداب دعا احادیث سےثابت ہیں ۔ ان آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہےکہ دعا کی ابتداء کی طرح اس کااختتام بھی اللہ کی حمد وثنا اورآنحضرت ﷺ پرصلاۃ وسلام بھیجنے کےساتھ کیا جائے كما صرح به ابن الجزرى فى ،، الحصن الحصين ،، والنووى فى ’’ الأذكار ،، وابن الامام فى ’ ’ المومن ،، والقسطلانى فى’’المواهب للدنية ،، .
(2)امام احمد نے حضرت جابر سے ایک مرفوع حدیث کی ہے جس میں یہ ٹکڑا بھی ہے:ولكن اجعلوا فى أول الدعاء أووسطه وآخره ، ، - ونیز حضرت عمر سےمروی ہے:’’إن الدعا ء موقوف بين السماء والارض ، لا يصعدمنه شئى حتى تصلى على نبيك صلى الله عليه وسلم ،، (ترمذى ) (كتاب الوتر باب ماجاء فى فضل الصلاة على النبى صلي الله عليه وسلم(486)2/356) .
(3)كلمه اسلام ’’ لااله الا الله ، محمد رسول الله ،، كےساتھ یہ کلمہ ذکر ’’ لا الہ الا اللہ ،،کےساتھ دعا ختم کرناکسی مرفو ع یاموقو ف روایت سےثابت نہیں ۔ اور نہ ہی اس کوکسی محدث یاامام وففیہ نےآداب دعا میں ذکر کیا ہے۔ اوراس کےلیے حدیث مذکورفی السوال’’ من كان آخر كلامه لا اله الا الله دخل الجنة ،، سےاستدلال کرنا صحیح نہین ہے ۔اس حدیث میں کلمہ ذکر لاالہ الا اللہ کی یہ فضیلت بیان کرن مقصود ہےکہ جس شخص کی زبان پرموت کےوقت یہ کلمہ جاری ہوجائے اوروہ اس کےبعد اس کےخلاف کوئی کلمہ نہ نکالے تواس کلمہ ذکر کی برکت سے اس کوجنت میں دخول اولی حاصل ہوگا ۔اس حدیث میں قسم کاذرہ بھی اشارہ نہیں ہے کہ دعا کےآخر میں اس کےکہنے سےدعا کی قبولیت کی امید ہوتی ہے۔پس دعا کوکلمہ اسلام یاصرف کلمہ ذکر کےساتھ ختم کرنا بےدلیل بات ہےاوردعا کےمسنون ومستحب طریقہ کےخلاف ہے،اورجاہل ان پڑھ لوگوں کاکام ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص جہلا اسی کلمہ یاکلمہ ذکر کےساتھ دعا ختم کرے تووہ نہ تواسلام سےخارج ہوگا اورنہ ہی اس کےاعمال خبط ہوں گے وہ بہرحال مسلمان رہے گا، مشرک وکافر نہیں ہوجائے گا ،کیونکہ دعا کےآخر میں اس کلمہ کےکہہ دینے سے اس کےمشرک ہونےاوراسلام سےخارج ہونے پر کوئی کمزور سےکمزور دلیل بھی نہیں ہےبلکہ اس کا ذکر کرناتو اس کے مسلمان ہونے کی روشن دلیل ہے۔لیکن یہ طریقہ دعا کےمذکورشرعی مسنون ادب کےضرورخلاف ہے، (محدث بنارس شيخ الحديث نمبر)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب