سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(183)مذاكره علميه

  • 17205
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2989

سوال

(183)مذاكره علميه

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جامع ترمذی ’’باب ماجاء فى الصلوة خلف الصف وحده ،، کےتحت امام ترمذی نےحضرت وابصہ بن معبد کی حدیث دوطریق سےروایت کی ہےاوران میں سے ایک طریق کودوسرے پران الفاظ میں ترجیح دی ہے’’ وهذا عندى أصح من حديث عمروبن مرة ، لأنه قدروى من غير حديث هلال بن يساف عن زيادة بن الجعد عن وابصة ،،(رقم الحديث : 230-1/446-447-448) اس وجہ ترجیح کی توضیح کی ضرورت ہے۔اس سےطریق اول کادوسرےپررجحان کیوں کرثابت ہوا؟ تحفۃ الاحوزی 1؍195میں اس مقام کی توضیح نہیں کی گئی ۔  احمداللہ رحمانی دمکا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ یہ مقام محتاج بسط وتوضیح ہے۔ نہ معلوم حضرت شیخ نےاس سےکیوں نہیں تعرض فرمایا ۔امام ترمذی کی بیان کردہ وجہ ترجیح کی تشریح وتوضیح سےپہلے ضرورت ہےکہ حدیث کی سند میں جوکچھ اختلاف ہےاسے بالتفصیل بیان کردیا جائے تاکہ یہ مقام پورے طورپر واضح ہوجائے۔

حضرت وابصہ کی یہ حدیث حسب ذیل پانچ طرق سےمروی ہے:

(1)ابوالأحوص عن حصين عن هلال بن يساف عن زيادبن ابى الجعد عن وابه بن معبد(ترمذى ).

(2)سفيان الثورى عن ’’ عن ’’ عن ’’ عن ’’       مسند احمد4/228).

(3)شعبة      عن ’’ عن ’’ عن ’’ عن ’’           احمد4/228).

(4)ابن عيينة عن ’’ عن ’’ عن ’’ عن ’’          بيهقى 3/ 104 ) .

(5)عبشربن القاسم عن ’’ عن ’’ عن ’’ عن ’’

 دارمى (1290) 1/237،ابن حبان (1296-1297)3/311)

(1)عبدالله بن ادريس عن حصين عن هلال بن يساف (من غيرواسطة زيادبن ابى الجعد ) عن وابصة بن معبد

     (ابن ماجه ( 1004)1/321) .

الثورى عن ’’ عن ’’ (’’               ’’) عن ’’(بيهقى 3/ 104 ) .

عن منصور           ’’           ’’ ( ’’ ’’) عن                 ’’(ابن الجارود(319)ص 117   

الأعمش عن شمربن عطية عن     ’’ ( ’’ ’’) عن ’’(احمد 4/ 228 ) .

(3)عن شعبة عن عمرو بن مرة عن هلال بن يساف سمعت عمروبن راشد عن وابصة بن معبد (احمد 4/ 327/228، طيالسى ابوداؤد 1/137بيهقى ، 3/104،ابن حبان 3/311، بزار) .

(4)   وكيع عن يزيد بن ابى الجعد عن عمه عبيد بن ابى الجعد عن زيادبن ابى الجعدعن وابصة بن معبد ( احمد 4/ 228) .

عبدالله بن داود عن ’’ عن ’’عن ’’ عن ’’ (دارمى 1/ 237، بيهقى 3/104، ابن حبان 3/311، بزار ).

(5)عمربن على عن اشعث بن سوار عن بكيرين الأخنس عن حنش بن المعتمرعن وابصة (علل ابن ابى  حاتم 1/1000 ( 271)

پہلے اوردوسرے اورتیسرے طریق کےاختلاف کاماحصل یہ ہےکہ :

ہلال ابن یساف کےتلامذہ کےدرمیان اس امر میں اختلاف ہےکہ ہلال اوروابصہ صحابی کےدرمیان واسطہ ہے یانہیں ؟ اوراگر واسطہ ہےتووہ کون ہے ؟

ہلال کےچارشاگرد وں : ( 1۔ حصین 2۔ منصور۔3 شمربن عطیہ 4۔عمروبن مرہ )میں سے ایک شاگرد حصین کےپانچ تلامذہ : الوالاحوص ، سفیان ثوری ، شعبہ ، ابن عیینہ ، عبشر اورہلال کےچوتھے تلمیذ : عمروبن مرۃ ہلال اوروابصہ کےدرمیان واسطہ ذکرکرتےہیں ۔لیکن حصین  کےتلامذہ مذکورین واسطہ زیادبن ابی الجعد کابتاتےہیں ،اورعمربن مرۃ واسطہ کانام عمروبن راشدبتاتےہیں ۔

اورحصین کےدوشاگرد : عبداللہ بن ادریس اورثوری اورہلال کےدوسرے اورتیسرے تلمیذ : منصوروشمربن عطیہ کوئی واسطہ نہیں ذکرکرتے۔

’’ ہلال عن زیاد عن وابصۃ ،، کےطریق کی تائید ’’ عبيدبن ابى الجعد عن زيادعن وابصة،، سےہوتی ہوہے، جس میں عبیدنےوابصہ کی یہ حدیث اپنےبھائی زیاد کےواسطہ سےلی ہے۔

حدیث کی سند میں اس اختلاف کی وجہ سے بعض محدثین نےاس کومعلول اورمضطرکہہ دیاہے۔چنانچہ امام بیہقی معرفۃ السنن میں لکھتےہیں : ’’ وإنما لم يخرجاه صاحبا الصحيح لما وقع فى سنده من الإختلاف  ،، ( نصب الرايه 2/ 38 )

اور حافظ بزار اپنی مسند میں لکھتےہیں : ’’ أَمَّا حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ رَاشِدٍ، فَإِنَّ عَمْرَو بْنَ رَاشِدٍ رَجُلٌ لَا يُعْلَمُ حَدَّثَ إلَّا بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَلَيْسَ مَعْرُوفًا بِالْعَدَالَةِ، فَلَا يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ، وَأَمَّا حَدِيثُ حُصَيْنٍ، فَإِنَّ حُصَيْنًا لَمْ يَكُنْ بِالْحَافِظِ، فَلَا يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ فِي حُكْمٍ، وَأَمَّا حَدِيثُ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ، فَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ إلَّا وَهُوَ يُضَعِّفُ أَخْبَارَهُ، فَلَا يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ وَابِصَةَ، وَهِلَالٌ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ وَابِصَةَ، فَأَمْسَكْنَا عَنْ ذِكْرِهِ لِإِرْسَالِهِ، انْتَهَى.(نصب الراية 2/ 38 ) .

اورحافظ درایہ میں 1؍  171میں لکھتےہیں :’’ أخرجه البزار وضعفه ،، انتهى .

اوربعض محدثين نےترجیح کامسلک اخیتار کیا ہے، چنانچہ امام ابوحاتم اورامام احمد نے’’عمرو بن مرة عن هلال عن عمروبن راشد عن وابصة ،، کےطریق کوترجیح دی ہےفقد ذكر ابن ابى حاتم فى العلل 1/ 100 أنه سأل أباه عن روايتى حصين و عمروبن مرة عن هلال ، أيهما أشبه ؟ قال: عمروبن مرة أحفظ ،، انتهى ، وقال الدارمى فى سننه( 1/ 237 ) :  وكان أحمد بن حنبل ، يثبت حديث عمروبن مرة ،، انتهى .

اور خود امام دارمى نے ’’ يزيد ين زياد عن عبيد ابن ابى الجعد عن زيادة عن وابصة ،، کےطریق کوترجیع دی ہے۔ چنانچہ فرماتےہیں: ’’ وأنا أذهب إلى حديث يزيد بن زيادبن ابى الجعد ،، انتهى (سنن دارمى 1/ 237)اورامام ترمذی نے (1؍448)’’حصين عن هلال عن زياد عن وابصة ،،  کوارجح واضح بتایا ہے، اوروجہ اصحیت یہ لکھی ہے : ’’ لأنه قد روى من غير  حديث هلال بن يساف عن زيادبن ابى الجعد عن وابصة ،، (1/ 448 ) .

اس عبارت میں ’’ حدیث ،، کےاعراب میں دواحتمال ہیں ایک یہ کہ ’’حدیث  ،،کوہلال بن یساف کی طرف مضاف کرکے من غیر حدیث ہلال بن یساف پڑھا جائے اس صورت میں ’’ روی ،، فعل مجہول کامفعول مالم یسم فاعلہ ’’ عن زیاد بن ابی الجعد عن وابصۃ،، ہوگا۔ اورمطلب یہ ہوگا کہ ’’ حصین عن ہلا ل بن یساف عن زیاد عن وابصۃ ،،آیا ہے ، یعنی : زیادہ کووابصہ کا شاگرد بتانے میں ہلال منفرد نہیں ہیں ۔بلکہ بعض دوسرے رواۃ نےتابعی کانام زیاد بتانےمیں ہلال کی متابعت وموافقت کی ہے، اوروہ متابع یزید بن زیاد ین ابی الجعد عن عبید بن ابی الجعد ہیں جیسا کہ گزرچکا ، اور ’’عمروبن راشد ،، کا واسطہ بتانے میں ’’ عمروبن مرۃ عن ہلال ،، کاکوئی متابع نہیں ہے۔ابن حبان لکھتے ہیں : ’’ ليس هذا الخبر مما تفرد به هلال بن يساف ثم ذكرحديث يزيد بن زياد عن عمه عبيد ابن أبى الجعد عن زياد بن أبى الجعد عن وابصة ،، ( الإحسان بترتيت صحيح ابن حبان(3/ 311) .

دوسرا احتمال یہ ہےکہ ’’ حدیث ،، کومضاف نہ کہا جائے ، بلکہ اس کویوں منون پڑھاجائے لأنه قد روى من غير حديث هلال بن يساف عن زياد عن وابصة . اس صورت میں ’’ روی ،، کامفعول مالم یسم فاعلہ ’’ ہلال بن یساف ،، الخ ہوگا ۔ اورمطلب یہ ہوگا کہ کئی طریق سےعن ہلال عن زیاد عن وابصۃ مروی ہے۔یعنی : ابوالاحوص جوتلمیذ  ہیں حصین کے، ہلال سےاوپر زیاد بن ابی الجعد ذکرکرنے میں متفرد  نہیں ہے۔ بلکہ ان کےچار متابع موجود ہیں : ثوری ، شعبہ ، ابن عیینہ ، عبشر بن القاسم ۔ اوراُدھرعمروبن مرۃ اوران کےتلمیذ شعبہ ، ہلال ، سےاوپرعمر بن راشد ذکرکرنےمیں متفرد ہیں اوران کاکوئی متابع موجود نہیں ہے، اس دوسرے احتمال کی تائید زیلعی کی اس عبارت سےہوتی ہے جس کوانہوں نےبحوالہ ترمذی نقل کیا ہے: ’’ وهو عندى أصح من حديث عمروبن مرة ، لأنه روى من غير وجه عن هلال عن زياد بن عن وابصة- ،،(نصب الرايه 2/ 38 ).

اور ظاہر ہےکہ جماعت کی روایت کوفرد کی روایت پرترجیح ہوتی ہےكما تقرر فى موضعه،ونیز ثوری اورشعبہ میں اختلاف ہو توثوری کی روایت کی ترجیح ہوتی ہے ۔ ونیز شعبہ خودفرماتے ہیں ژ: ’ ’ سفيان أحفظ منى ،، ونیز خودشعبہ نےبھی ثوری کی موافقت کی ہے اور شعبہ کی کسی نےموافقت نہیں کی ہے۔

اوربعض محدثین نے تطبیق کی صورت اختیار کی ہے اورسب طرق کوصحیح بتایا ہے۔ زیلعی لکھتےہیں : ’’ وَرَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ فِي "صَحِيحِهِ" بِالْإِسْنَادَيْنِ الْمَذْكُورَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: وَهِلَالُ بْنُ يَسَافٍ سَمِعَهُ مِنْ عَمْرِو بْنِ رَاشِدٍ. وَمِنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ وَابِصَةَ. فَالْخَبَرَانِ مَحْفُوظَانِ. وَلَيْسَ هَذَا الْخَبَرُ مِمَّا تَفَرَّدَ بِهِ هِلَالُ بْنِ يَسَافٍ، ثُمَّ أَخْرَجَهُ عَنْ يَزِيدَ4 بْنِ زِيَادٍ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ عَمِّهِ عُبَيْدِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ أَبِيهِ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ وَابِصَةَ، فَذَكَرَهُ،، انتهى ( نصب الرايه 2/ 38 ) .

اورظاہر یہی ہےکہ یہ تمام طرق صحیح ہیں ان کےرواۃ ثقہ ہیں ۔ اورہرطریق دوسرے کاموئد ہے۔ ان میں کوئی ٹکراؤ اوراضطراب موجب للضعف قادح فی صحۃ الحدیث موجود نہیں ہے۔

صورت یہ ہوئی ہےکہ ہلال نےیہ حدیث پہلے عمروبن راشد سےسنی اس کےبعد وابصہ سےزیادبن ابی الجعد کی موجودگی اورحضور میں ملاقات کی ۔ عند الملاقات والا اجتماع زیاد نےاس حدیث کوہلال سےاس حال میں بیان کیاکہ وابصہ سن رہے تھے ۔كما يدل عليه سند الحديث عند الترمذى، وهذا يرد على قول البزار أن هلال لم يسمع من وابصة وابصہ نےسن کر سکوت فرمایا ۔ ان کایہ سکوت اقرار کےحکم میں ہوگیا ۔اس طرح یہاں قراءۃ علی العالم اور عرض علی الشیخ کی صورت متحقق ہوئی جو تحمل حدیث کےانواع معتبرہ میں سےہےگویا ہلال نےخود وابصہ سےیہ حدیث سن لی ۔اسی لیے وہ بعض اوقات وابصہ سےبلاواسطہ زیاد روایت کرتےہیں ۔بہرحال یہ بلا واسطہ زیاد والی روایت بھی متصل ہے، اوراس میں تدریس کاشائبہ نہیں ہے۔اسی چیز کی طرف امام ترمذی نےان الفاظ میں اشارہ کیاہے:’’ وفى حديث حصين مايدل على أن هلالا قدادرك وابصة إنتهى ،، فرواية هلال عن وابصة ورواية هلال عن زياد عن وابصة كلتاهما بمعنى واحد.

یا ہلال نےپہلے زیاد کی موجودگی میں وابصہ سےملاقات کی اورحدیث کووابصہ کےحضور میں زیاد کی زبان سےسنا ، پھر عمروبن راشد سےبھی سنا ۔

وقد صرح هلال بسماعه من عمرو بن راشد فى رواية ابى داؤد الطيالسى ، فهوإسناد متصل ايضاً ، وعمروبن راشد قد وثقة ابن حبان كما فى الخلاصة .

بنابریں ہلال کبھی عمروبن راشد سےیہ حدیث روایت کرتےہیں ، اورکبھی زیاد عن وابصہ سے، اس لیے کہ زیاد ہی اصل اپنی زبان سےحدیث بیان کرنےوالے ہین ، اورکبھی براہ راست وابصہ سےروایت کرتےہیں ، کیوں کہ زیاد کی تحدیث کےوقت وابصہ سماع فرمارہے تھے ، اورسکوت کےذریعہ حدیث کااقرار کیا تھا ، اورکبھی زیاد کی حدیث کووابصہ کےحضور میں بیان کرنے کونقل کردیتےہیں ، اوریہ سب صورتیں اپنی جگہ پرصحیح ہیں ۔ اورتمام طرق ثابت اورمحفوظ ہیں ۔

اور یہ بھی ہوسکتا ہےکہ زیاد کی طریق میں اختلاف سیاق رواۃ کےتصرف کانتیجہ ہو۔پھر اس کی تائید ’’ يزيد بن زياد عن عمه عبيد بن ابى الجعد عن زياد بن ابى الجعد ،، کی روایت سےبھی ہوتی ہے۔ کما تقدم یہ سند بھی صحیح ہے۔ یزید کی امام احمد ، ابن معین عجلی وغیرھم نےتوثیق کی ہے۔ اورعبید ثقہ تابعی ہیں ابن حبان نےان کوکتاب الثقات میں ذکرکیا ہے۔ مذکورہ بالا توجیہ وتطبیق کوامام ابن حزم نے محلی ( 4؍54،53 ) میں پسند کیاہے چنانچہ لکھتےہیں : ’’ ورواية هلال بن يساف حديث وابصة مرة عن زياد بن ابى الجعد ومرة عن عمربن راشد قوة للخبر ، وعمروبن راشد وثقة أحمد بن حنبل وغيره،،انتهى – اورواضح ہوکہ مسند احمد کی روایت ’’ شمربن عطیۃ عن ہلال عن وابصۃ،،بھی  صحیح ہے۔ شمر کی توثیق ابن نمیر ، ابن معین ، نسائی ، عجلی ، ابن سعد وغیرھم نےکی ہے ۔ اوراصل حدیث کی تقویت کےلیے پانچویں طریق کوذکر کرنا بےموقع نہ ہوگا اگرچہ وہ سندا‎ً  کمز ور ہے۔ امید ہےاس مفصل تقریر سے یہ مقام حل ہوجائے گا ۔

تنبیہ :

’’ لأنه قدر وى من  غير حديث هلال بن يساف عن زياد بن ابى الجعد عن وابصة ،، کےبعد جامع ترمذی مطبوعہ دہلی 1320ھ اورجامع ترمذی مطبوعہ بولاق مصر1293ھ اور ترمذی  متن تحفۃ الاحوزی میں یہ عبارت واقع ہے: ’’ حدثنا محمد بن بشار حدثنا محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن عمر وبن مرة عن زياد بن ابى الجعد عن وابصة قالو،، واقع ہےاور یہ زیادۃ بےاصل ہے۔نساخ کی غلطی سے اس کااضافہ ہوگیا ہے۔ جامع ترمذی کےتین صحیح نسخے اس زیادۃ سےخالی ہیں :

(1)طبقة بولاق مصر 1292ھ ملک  الشيخ احمد الرفاعى المالكى ، وقد قرأ الكتاب فيها درسا وصححها وضبطها بخطه  1311ھ .

(2)مخطوطة الشيح عابد السندى محدث المدينة المنورة فى القرن الماضى، وقد قرأهاوصححها بنفسه فى سنة 1221ھ وهى من أصح النسخ .

(3)  مخطوطة دارالكتب العربية وتاريخها 726....... كذا حققه وذكره العلامة الشيخ احمد محمد شاكر القاضى الشرعى فى تعليقه  على جامع الترمذى .

  (مصباح بستى / ربيع الآخر1471ھ)

 مولانا کھنڈیلوی اوروجہ ترجیح طریق ہلال بن یساف عن زیاد بن ابی الجعد عن وابصۃ

ماہنامہ ’’ مصباح ،، میں اس فقیر کےنام سےجن علمی اورغیر علمی استفسارات کےجوابات شائع ہورہے ہیں ۔ وہ بالعموم بزمانہ ملازمت دارالحدیث رحمانیہ دہلی لکھے گئے ہیں ۔ جواب مدیر’’مصباح ،، کی خواہش پرنظر ثانی کےبعد ان کے پاس بھیجے جاتے ہیں ۔ ان کےعنوانات وہ خود تجویز کرتےہیں ۔ چنانچہ حدیث وابصہ بن معبد کی سند میں اختلاف اورامام ترمذی کی بیان کردہ وجہ ترجیح سےمتعلق استفسار کےجواب میں تحریر لکھی گئی ہے، اس کاعنوان ’’مذاکرہ علمیہ ،، مدیر ’’ مصباح ،، کااپنا قائم کردہ ہے۔

محترم مولانا عبدالجبارصاحب کھنڈیلوی محدث دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کواس تحریر میں ’’ چند مسامحات ،، نظرآئے ، جن کی نشاندہی کےلیے آپ نے عربی میں ایک  مقالہ تحریر فرما کراشاعت کےلیے دفتر’’ مصباح ،، میں بھیج دیا ، لیکن مدیر کوہدایت فرمادی کہ وہ اس کابامحاورہ ترجمہ کردیں اور’’ مصاح،، میں مع ترجمہ شائع کریں ۔ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اشاعت سےپہلے یہ مقالہ مجیب (عبیداللہ ) کونہ دکھایا جائے ، اگر کسی وجہ سے شائع نہ ہوسکے توواپس کردیا جائے لیکن مجیب کوہرگز نہ دکھایا جائے۔(اوکما قال) مقالہ عربی میں لکھنے اورمدیر ’’مصباح ،، کوترجمہ کرنے کی ہدایت فرمانے ، اوراشاعت سےپہلے مجیب کونہ دکھائے جانے کوموکد ہدایت کرنے کےکیا اسباب ہیں؟یہ فقیر ان کو سمجھنے سےقاصر ہے، خدا کرے وہ مولانا کی علمی جلالت کےشایان شان ہوں  ۔

مدیر ’’مصباح ،، نےاپنی پریشانیوں کی وجہ سے ترجمہ سےمعذوری ظاہر کرتےہوئے مقالہ واپس کردیا ، بڑی خوشی ہوتی اگر مولانا کااصل عربی مقالہ مع ترجمہ کےپہلے’’مصباح ،، میں شائع ہوا ہوتا ،کیوں کہ میرا مضمون ’’مصباح ، ، ہی میں شائع ہوا تھا۔ مولانا نےاپنا یہ مقالہ ’’ الہدیٰ ،، میں اردو میں شائع کرایا ، البتہ امام ترمذی کےکلام بابت ترجیح طریق ’’ هلال بن يساف عن زياد بن ابى الجعد عن وابصة ،، كی عربی شرح باقی رکھی اوراس کاخلاصہ ترجمہ کردیا۔

بہ فقیر مولانا کاممنون ہےکہ آپ نےاپنے اس تعاقب کےذریعہ ، جودرحقیقت ایک علمی  زلہ اورتقلید ضلالت کااچھا نمونہ ہے ۔

اس عاجز کواپنے جواب پرنظر ثانی کرنے کی طرف متوجہ فرمایا ، اس طرح ترمذی کایہ مقام انشاء اللہ اورمنقح ہوجائے گا، اوراہل علم اور اصحاب ذوق پران ’’چند مسامحات ،، کی حقیقت واضح ہوجائے گی جومولانا کواصل جواب میں نظر آئے۔

مدیران ’’ الہدیٰ ،، اور ’’ مصباح ،، مستحق شکریہ ہیں کہ  وہ ایسے مضامین شائع کرکے اپنے قارئین میں خشک علمی مباحث کاذوق پیدا کرنے کی کوشش کررہےہیں ۔خدا کرےکہ صرف ان کےقارئین ہی نہیں بلکہ تمام  علماء اہل حدیث جنہیں بقول مولانا کے’’ آج فن حدیث کےمتعلق علمی مذاق نہیں رہا اوروہ اکثر ہمارے مدرسین جن کی تعلیم سطحی طریق پرہوتی ہے اورجو مفہوم کتاب کونہیں سمجھتے ،، یہ سب کےسب اپنی موجودہ روش کوبدل  دیں تاکہ مولانا کوپھر اس قسم کی دستاویز شائع فرما کرغیروں کی ہفوات کی تصدیق کاموقع نہ ملے ۔

ہماری یہ تحریر مولانا کےمضمون کوبغور پڑھنے کانتیجہ ہےناظرین سےگزارش ہےکہ وہ اسے پڑھنے کےوقت تکلیف فرماکر ’’ مصباح ،، شمارہ نمبر : 4( ربیع الثانی 1371ھ)اور’’الھدی ،، شمارہ نمبر : 9جلد: 4 ( یکم مئی 1953ء ) ضرور سامنے رکھیں ، اوراگر جامع ترمذی بھی پیش نظر رہے تواور بہتر ہوگا ۔

امام ترمذی نےاپنی ’’جامع ،، میں وابصہ بن معبد کی حدیث صرف دوطریق (سند) سےروایت کی ہے( نہ تین طریق سےكما توهم الشيخ محمد انور الكشميرى الديوبندى فى أماليه ) .

(1)حصين عن هلال بن يساف عن زياد بن ابى الجعد عن وابصة.

(2)شعبه عن عمروبن مرة عن هلال بن يساف عن عمرو بن راشد عن وابصة .

امام ترمذی نےپہلے طریق سےحدیث روایت کرنے کےبعد اوردوسرے طریق سےروایت کرنےسے قبل ، ایک طریق کودوسرے پرترجیح  دینے کےبارےمیں محدثین کااختلاف ذکر کرتے ہوئے اپنا عندیہ بھی ظاہر کیا ہےاوراس کی وجہ بھی لکھ دی ہے پھر حدیث کودوسرے مذکورہ بالا طریق سےروایت کیاہے۔ اختلاف علماء حدیث اوراپنا خیال ان الفاظ میں تحریر فرمایا ہے : ’’ واختلف أهل الحديث فى هذا فقال بعضهم : حديث عمروبن مرة عن هلال بن يساف عن عمروبن راشد عن وابصة أصح ، وقال بعضهم : حديث حصين عن هلال بن يساف عن زيادبن ابى الجعد عن  وابصة اصح.وهذا(اى حديث حصين عن هلال عن زياد الخ ) عندى أصح من حديث عمروبن مرة ( عن هلال عن عمروبن راشد الخ  يعنى : كون الحديث من رواية زياد عن وابصة أصح عندى من كونه من رواية عمروبن راشد عن وابصة ) لأنه قدروى من غير حديث هلال بن يساف عن زياد بن ابى الجعد عن وابصة ،، انتهى

اس نشان زدہ عبارت کی تشریح کےسلسلہ میں راقم السطور نےلکھا تھا کہ ’ ’ من عير حديث هلال بن يساف ،، میں لفظ ’’حدیث،، کےاعراب میں دواحتمال ہوسکتے ہیں پھر دونوں احتمالوں کی روشنی  میں پوری عبارت توضیح کی تھی ۔

مولانا کھنڈیلوی نےپہلے احتمال کو  تین وجہ سے اوردوسرے احتمال کو دو وجہ سےعیرصحیح قرار دیا ہے ۔ پھر پوری عبارت کی بزعم خویش صحیح ترکیب لکھی ہےاوراس کامطلب واضح کرنے کی کوشش ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہےکہ مولانا کےیہ اعتراضات ’’اعتراض برائے اعتراض ،، کی قسم سےہیں ، اورنشان زدہ عبارت کی جو تشریح انہوں نے کی ہےوہ بھی سطحی نظر اور مفہوم عبارت نہ سمجھنے کانتیجہ ہے، اور قطعا اس لائق نہیں کہ اسے ایسے عالم کی طرف منسوب کیاجائے ، جو اب علماء اہل حدیث میں فن حدیث کےمتعلق علمی مذاق نہ رہنے کا شکوہ کررہا ہو ، اور ہمارے مدرسین کی تعلیم وتدریس کےسطحی ہونے اوران کےمفہوم کتاب تک نہ سمجھنے کادعویٰ کررہا ہو۔

مولانا نےپہلے احتمال کو( جس میں ہم نےلفظ حدیث کو’’ ھلال ،، کی طرف مضاف اور’’رویٰ،، کوفعل  مجہول اور’’ عن زیاد ،، کو اس مامفعول مالم یسم فاعلہ  بتایا ہے ) غیرصحیح بنانے کےلیے ایک  نحویانہ وجہ طویل عبارت میں تحریر فرمائی ہے، جس کاخلاصہ یہ ہےکہ ’’ لانه،، سے پہلے ’’ عمروبن مرۃ ،، واقع ہےاس لیے وہ ’’ لأنه ،،  میں ضمیر متصل کا ........ (جوإن كااسم ہے) مرجع ہوگا اور’’ روی ،،  إن  ّ کی خبر ۔ اور اس کی ضمیر مرفوع مستتر کومرجع بھی وہی ’’ عمروبن مرۃ ،، ہے، اس لیے ’’روی ،، لامحالہ فعل معروف ہوگا نہ کہ فعل مجہول ۔

مولانا ! یہ کس نحوی قاعدہ  کی روسے ضروری ہوگیا کہ چوں کہ ’’ لأنه ،،  سےپہلے اوراس کےمتصل ’’ عمروبن مرۃ ،، ہےاس لیے وہی ’’ لانه ،،  میں ضمیر کامرجع ہوگا ۔آپ کاغالباً ان دوضمیروں کےمرجع کی تلاش کی  فکر کی وجہ سےایک مشہور نحوی قاعدہ سےذہول ہوگیا ۔

مولانا ! ضمیر شان اورقصہ بھی کوئی چیز ہے ؟ ’’ لانه ،، میں ضمیر شان کی ہے جس کی تفسیر آگے کاجملہ کررہا ہے والمعنى :الأن الشان قد روى اى ذكرأو ورد من غيرحديث هلال لفظ عن زياد عن وابصة ، يعنى : أن كون الحديث من رواية زياد عن وابصة أصح ، لأن لفظ عن زياد عن وابصة قد روى من غير حديث هلال ، والمراد بهذا الغير ، هو طريق يزيد بن زياد عن عبيدبن ابى ابى الجعد عن زياد عن وابصة ، وهذا كقوله تعالى : لاتعمى الأبصار ،، فإن القصة لاتعمى الأبصار ، فالضمير القصة ، ولا تعمى الأبصارمفسره له . اور اگر آپ کواصرار ہےکہ ’’ لأنه ،، میں ضمیر کاکوئی مرجع ایک متقدم ہونا چاہیے جو’’ إن،، كا اسم  ہواور’’ روی ،، اس کی خبر ۔ اورظاہر ہےکہ اس صور ت میں ’’ إنه ،، اور ’’ روى ،، دونوں کی ضمیر کامرجع ایک ہونا چاہیے تولیجئے ان دونوں ضمیروں کامرجع وہی ہےجواس سےپہلے ’’ هذا عندى اصح من حديث  عمروبن مرة ،،  میں ’’ ھذا ،، اسم اشارہ کامشارالیہ ہے۔ والمعنى : وهذا   أى حديث حصين عن هلال عن زيادعن وابصة أصح عندى من حديث عمروبن مرة عن هلال عن عمروبن راشد عن وابصة ، أى كون الحديث من رواية زياد عن وابصة أصح من كونه من رواية عمروبن راشد عن وابصة ، لأنه اى حديث حصين عن هلال عن زياد عن وابصة ، قد روى من  غير حديث هلال عن زياد عن وابصة أى روى عن زياد عن وابصة من طريق آخر غير طريق هلال ، وهو طريق  يزيد عن عبيد عن زياد عن وابصة ، واالحاصل  أنه لم يتفرد حصين عن هلال بذكر واسطة زياد ، بل تابعه على ذلك  يزيد عن عبيد ، فاتفق حصين عن هلال ويزيد عن عبيد على ذكر واسطة زياد ،  ورواية الحديث من طريق زياد بخلاف عمروبن مرة عن هلال ، فإنه قد تفرد بذكرواسطة عمروبن راشد ، ولم يتابعه أحد على ذلك ، ولذلك رجع الترمذى كون الحديث من رواية زياد عن وابصة .

اس توجیہ پر’’ عن زياد ،، ’’روی ،، کےمتعلق ہوگا لیکن ’’لأنه ،، میں ضمیر کامرجع ’’ عمروبن مرة ،، کسی حال میں نہیں ہوسکتا اورنہ ہی ’’ روی ،، صیغہ معروف ہوسکتاہےکیونکہ اس صورت میں ترمذی کایہ کلام بےمعنی ہوجائے گا کما سيأتى .

مولانا نےپہلے احتمال پردوسرا کلام یوں کیا ہے: اگر ’’ روی ،، کامفعول مالم یسم فاعلہ عن زیاد عن وابصۃ بنایا جائے گا تواختلاف  مابین الاسم والخبر لازم آئے کا ۔الخ ۔

یہ بنا ء فاسد علی الفاسد ہے’’ لانه ،، میں جب ضمیر شان کی ہے اور"روى  فعل مجہول ہےجس کانائب فاعل لفظ ’’ عن زیاد عن وابصۃ ،، ہےتواسم اورخبر اوران کےدرمیان اختلاف کاقصہ ہی ختم ہوگیا ، یااگر ’’ لانه ،، اور ’ ’ روى ،، دونوں کی ضمیر وں کامرجع حدیث ہو (حسب مابینا ) تواسم وخبر کےدرمیان اختلاف کہاں لازم آیا ؟

مولانا نے تیسرا کلام یوں کیا ہے:’’ اکثر جار مجرور متعلق فعل یا شبہ فعل یامعنی فعل ہوتےہیں ، اس کونائب فاعل بنانا صرف عن الظاہر ہے گوبعض اوقات جارمجرور نائب فاعل ہوتےہیں جبکہ الفاظ مراد ہوں ، مگر یہاں پرمتعلق جارمجرور فعل موجود ہےاوروہ ’’ روی ،، ہے۔ انتھی

’’اکثر،، کوتصریح اور’’ گوبعض اوقات الخ ،، کےذریعہ استثناء کےباوجود اس احتمال پرجس میں لفظ ’’عن زیاد عن وابصۃ ،، کونائب فاعل بنانا مقصود ہےلیکن باوجود اس کےنہ معلوم کس غرض سےآپ نےکلام کایہ نمبر بڑھادیا ۔ واضح ہوکہ یہاں جار مجرور یعنی ’’عن زیا دالخ ،، کامتعلق ’’روی ،،مذکورہ اسی وقت ہوسکتا ہےجبکہ لانه میں ضمیر مرجع اورروی فعل مجہول کانائب فاعل حدیث  كما تقدم وسيأتى ايضا .

مولانا ! اسى سےملتی جلتی ترمذی کی یہ عبارت بھی ہے:’’  قال : وروى عن ابى عوانة عن خالد بن علقمة عن عبدخير عن على ، قال: وروى عنه عن مالك بن عرفطة مثل رواية شعبة والصحيح عن خالد بن علقمة ،، ایک احتمال کی بناء پرلفظ عن خالد بن علقمہ الخ ’’روی،، اول کانائب فاعل او ر لفظ :’’ عن مالك بن عرفطة ،، روى،، ثاني كانائب فاعل  ہوسکتا ہےاوراگر ’’روی،، کا نائب فاعل ضمیر مستترکوبنایا جائے جس کا مرجع حدیث ہوگا توحرف جار ’’ عن خالد ،، ’’ روی ،، مجہول کےمتعلق ہوجائے گا ۔مولانا نےدوسرے احتمال پر(جس میں ’’ من غير حديث هلال بن يساف ،، میں لفظ ’’ حدیث ،، کومنون اور ’’ھلال ،، الخ کو’’ روی ،، کانائب فاعل ہونے کی بناء پرمرفوع بتایا گیا ہے) پہلا کلام یوں کیا ہے ،’’حدیث ،، کوقطع اضافت کےساتھ  منون پڑھناصرف عن الظاہر ہے،اس پر کوئی قرینہ ہوناچاہیے ۔انتھی ۔ مولانا جس احتمال کوظاہر کہہ دیں وہ ظاہر ہےاورجس کوغیر ظاہر صرف عن الظاہر فرمادیں وہ غیر ظاہر اورمحتاج قرینہ ہے۔ہذاشئی عجیب ۔

مولانا ! اگر ’’ حدیث ، کو غیرمنون مع اضافت پڑھنا ظاہر ہےتومنون مع قطع الاضافت پڑھنا اظہرہے ۔ اس کی تقویت وتائید ’’نصب الرایہ ،، کی اس عبارت سےہوتی ہےجس کوزیلعی  نےعبارت مبحوثہ عنہا کی بجائے جامع ترمذی سےیوں نقل کیا ہے۔’’وهو عندى أصح من حديث عمروبن مرة ، لأنه روى من غير وجه عن هلال عن زياد عن وابصة ،، .

اگریہ عبارت نقل بالمعنی ہے كما هوالظاهر تو اس سے واضح طورپر یہ سمجھا جاسکتاہےکہ زیلعی نے’’ من غیر حدیث ھلال ،،  میں ’’ حدیث ،، کومنون  پڑھا ہےاس کوطریق کےمعنی میں لیاہے مطلب یہ ہوگا کہ اس حدیث (طریق ) کےعلاوہ کئی حدیث (طریق ) سے’’ عن هلال عن زياد عن وابصة ،، روایت کیاگیا ہے یا حدیث مذکورطریق مذکورہ کےعلاوہ کئی طریق سے’’  هلا ل عن زياد عن وابصة ،، سےمروی ہے۔ اوراس کئی طریق سےمراد ثوری ، شعبہ ، ابن عیینہ ، عبشر عن ھلال کےطرق ہیں ۔ کہ یہ چاروں ’’ھلال ،، سے اوپر’’زیاد عن وابصۃ ،، ذکرکرتےہیں ۔بخلاف شعبہ عن عمرو بن مرۃ ،، کےکہ وہ ’’ ھلال ،، سےاوپر ’’عمروبن راشد ،، ذکرکرنےمیں متفرد ہیں اوریہ ایسا ہےجیسا کہ امام ترمذی ’’ باب المسح على الخفين للمسافر والمقيم میں ’’ عاصم بن ابى النجود عن زر عن حبيش عن صفوان ،، کےطریق سےحدیث روایت کرنے اورمذاہب وغیرہ بیان کرنےکےبعد فرماتےہیں :’’ وقد روى هذاالحديث عن صفوان بن عسال من غير حديث عاصم ،، انتهي – 1/ 160 (909) .

مولانا نےدوسرے احتمال پردوسرا کلام یوں کیا ہے:

’’ حدیث ،، کومنون مع قطع الاضافت پڑھنے سےیہ لازم آتاہےکہ ’’روی ،، کانائب فاعل ایک ذات مشخص ہواور یہ خلاف محاورہ عرب ہے اکثر’’ روی ،، کااطلاق حدیث وطریق وسند پرہوتا ہےنہ کسی ذات مشخص پر، فلا يقال روى زيد بل يقال روى عن زيد أو روى هذا السند من طريق فلان وغيره . پس ’ ’ وری ،، کوفعل مجہول اور’’ھلا بن یساف،، کونائب فاعل بنانا صحیح نہیں ہے،، ۔انتھی ۔

گزارش یہ ہےکہ جب یہاں لفظ ’’ھلا ل عن زیاد ،، الخ کونائب فاعل بنانا مقصود ومراد ہے، تو ’’روی ،، کانائب فاعل ذات مشخص کاہونا کس طرح لازم آگیا ؟ پھر ایک طرف توآپ ذات مشخص کا’’روی ،، نائب فاعل ہونا خلاف محاورہ عرب قرار دیتےہیں لیکن اس کےبعد فوراً ہی محاورہ عرب یوں بیان کرتےہیں :

’’ اکثر روی کااطلاق حدیث وطریق وسند پرہوتاہےنہ کہ ذات مشخص پر، آپ کی ’’اکثر قید سےصاف نکلتا ہےکہ کبھی کبھار ’’روی ،، کااطلاق ذات مشخص پربھی ہوتاہے۔ پس اس کےبعد ’’ فلا یقال روی زید ،، کامحاورہ پیش کرنا کیوں کرصحیح ہوسکتا ہے؟کیوں کہ جب ’’اکثر ،، کی قید کی رو سےبعض اوقات ذات مشخص پربولنے کاجواز آپ کےکلام سے ثابت ہے تو فلا یقال الخ کےذریعہ  بالکلیہ اس کی نفی کرنی درست نہیں ہوسکتی،اورہمارے نزدیک تو’’ روی زید ،، کہنا درست ہےاگر لفظ مراد ہوپھر أو روى هذا السند من طريق فلان ،،كامحاوره لکھ کرتو آپ نےاس عاجز کی پوری تائید فرمادی ہےورنہ ایک مہمل جملہ بول گئے ہیں ۔ تفصیل اس کی یہ ہے :’’ سند ،، کہتےہیں ’’ اخبار عن طريق المتن ،، کو ( الفیہ ، سیوطی ، تدریب الراوی وغیرہ ) یا " حكاية طريق المتن " كو(شرح نخبہ ) یعنی ’’سند ،، نام ہے:’’ اسماء رواۃ متن ،،کا  ۔ بناء على مانقل عن الحافظ .

پس مولانا کےنقل کردہ محاورہ میں ’’ سند ،،سے مراد ’’ اسماء رواۃ ،، ہوں گے اورمطلب یہ ہوگا کہ : یہ اسماء رواۃ فلاں کےطریق سے روایت کیے گئے ہیں اب اسماء سےمراد الفاظ ہوں گے یاان کےمسمیات ، یعنی : ذوات مشخصہ ۔ اگرپہلی شق مراد ہےتوہماری مؤید ہوئی ، اس لیے کہ ہم نےلفظ ھلال عن زیاد کوجواسماء رواۃ ہیں ’ ’ روی ،، کانائب فاعل بنایا ہے۔اگر دوسری شق مراد ہےتو آپ کےاس پیش  کردہ محاورہ کی رو سےذات مشخصہ پر’’ روی ،، کےاطلاق کاجوازہی نہیں بلکہ اس کامحاورہ ہونا ثابت ہوتاہے۔ اورآپ کےاس محاورہ کا بےمعنی ( مہمل ) ہونا اس طرح محقق ہےکہ ’’سند ،، نام ہے’’طریق متن ،، (اسماء رواۃ ) کااور’’طریق ،، نا ہے ’’سند ، ، کاتو ’روى هذا السند من طريق فلان ،، كا معنى یہ ہواکہ یہ سند فلاں کی سند سےیا یہ طریق فلاں کےطریق سےروایت کیا گیا ہے وهذا كما ترى ليس له معنى صحيح اللهم إلا أن يكون المراد ، أنه روايت هذه القطعة من السند من طريق فلان أى ورد ذِكرُ هولاء الرواة من طريق فلان، وهذا يؤيد كلامنا فى انشاء الإحتمالين مولانا كوتكثر’’ مسامحات ،، کی دھن میں یہ خیال نہیں  رہا کہ ان  کاقلم کیا لکھ رہا ہے۔ انا اللہ الخ ، بہرکیف ان  مختصرگزارشات سےقارئین کرام پرواضح ہوگیا ہوگا کہ مولانا نےہمارے لکھے  ہوئے دونوں احتمالوں پرجن چند وجوہ سےکلام کیا ہے ان کا ’’ وزن ،، کیا ہے ، اور ہماری تحریر میں آپ کوجو چند مسامحات نظر آئے ، ان کی کیا حقیقت ہے۔ مولانا ۔۔۔۔ ! وإن تعودوانعد الخ.

قارئین کرام سے اب عرض ہےکہ مولانا نےامام ترمذی کےکلام مشتمل بروجہ ترجیح طریق ’’ زیاد عن وابصۃ ،، کی عربی میں جوتشریح فرمائی ہےاسے اوراس پرہماری تنقید کوبغور ملاحظہ فرمائیں ۔مولانا نے نہ معلوم اس حصہ کی عربی کیوں باقی رکھی؟ شاید اس لیے کہ ان کی اس تشریح وتوجیہ کاماخذ بھی عربی میں ہ ے۔ واللہ اعلم ۔

بہرحال حال مولانا کےتشریح الفاظ یہ ہیں :

’’ قال ابو عيسى الترمذى: إن هذا المعلوم، من غير حديث هلال بن يساف ، عن زياد بن ابى الجعد عن مرة ،  لأنه أى عمروبن مرة قد روى بصيغة المعلوم ، من غير حديث هلال بن يساف ، عن زياد بن ابى الجعد عن وابصة ، فلفظ روى فى كلام الترمذى بصيغة المعلوم لا بصيغة المجهول ، ولفظ  عن زياد متعلق بروى المذكور وفاعل روى عمروبن مرة ،، انتهى كلام الشيخ الكنديلى (الكهنديلوى ) .

قلت : كلا بل قوله روى على بناء المفعول لابناء الفاعل ، والضميرالمتصل فى قوله لأنه ليس لعمروبن مرة ، بل هو ضمير الشان وحرف الجار ، اى قوله عن زياد ليس متعلقا بروى المذكور ، بل هونائب فاعل لقوله روى ، بناء على ان المراد منه اللفظ لا المعنى ، كما اوضحنا ذلك غير مرة ، وأما على ماقال الشيخ فيفسد المعنى ، ولا يصح كلام الترمذى هذا ، فإن قوله ’’ لأنه قد روى من غير حديث هلال بن يساف ،، يقتضى على شرح الشيخ ، ان عمروبن مرة روى حديث  وابصة من حديث آخر ، غير حديث هلال بن يساف، اى روى من طريق آخر غيرطريق هلال، ثم جعل وقوله : عن زياد متعلق بروى المذكور، يقتضى أن عمروبن مرة رواه عن زياد مباشرة، أى من غير واسطة ، وأن رواية عمروبن مرة عن زياد بلا واسطة هى غيرحديث هلال ، يعنى طريق عمربن مرة عن زياد غيرطريق هلال، وهوالذى فهمه صاحب العرف الشذى ، بناء على ماوقع فى النسخة الأحمدية وغيرها من النسخ المطبوعة لجامع الترمذى ، بعدذلك من زيادة قوله ’’ حدثنا محمد بن بشارنا محمد بن جعفر ناشعبة عن عمروبن مرة عن زياد بن ابى الجعد عن وابصة ،، . قال صاحب العرف بعد ذكره : " هذا حديث زياد بن ابى الجعد غيرحديث هلال بن يساف عنه ،، انتهى ، لكن هذا كله مخالف لما ذكره الشيخ الكنديلى بعد شرحه المتقدم ، حيث قال: ’’ فرجع الترمذى هذا أى حديث زياد بن ابى الجعد على حديث عمروبن راشد ،لأنه قد روى من طريقين :

(1) طريق حصين عن هلال عن زياد عن وابصة ،

(2) وطريق عمروبن مرة عنه هلال عن زياد عن وابصة،، انتهى،فإن هذا صريح فى أن  عمروبن مرة لم يروه عن زياد مباشرة ،بل روى بواسطة هلال ، أعنى : أن كلامه هذا يدل صريحا على أنه بين عمروبن مرة وبين زياد واسط هلال ، وهذا كما ترى مناقض ، لما يدل عليه كون ’’ عن زياد ،، متعلقا بروى المذكور، من أن عمروبن مرة روى عن زياد مباشرة،اى بلاواسطة، ومخالف لما يدل عليه الزيادة المذكورة .

ثم إن قول الشيخ فى بيان الطريق الثانى : وطريق عمروبن مرة عن هلال عن زياد عن وابصة ، مخالف لشرحه ، أن عمروبن مرة روى حديث زياد من غير حديث هلال ، فإن هذا ظاهر فى فى أن عمروبن مرة لم يروه من طريق هلال ، بل من طريق آخر غيرطريق هلال.

وفيه ايضا أن كلامه لبيان الطريق الثانى ، يقتضى أن قوله الترمذى’’عن زياد ،، فى بيان وجه الأصحية ،، ليس متعلقا بروى المذكور ، بل هو متعلق بروى المقدر بعد قوله ’’ هلال ،، وهذا لمن تامل تأملا صادقاً.

ثم نسال الشيخ الكنديلى بعد الإغماض والإغضاء عن كلامه ، للتناقض الذى لا يظهر إلا من رجل ينسيه آخرُ كلامه أوله ، أن يمن علينا بذكر من خرج هذا الحديث من طريق عمروبن مرة عن هلال عن زياد عن وابصة ، وتعيين الكتاب الذى خرج فيه من هذا الطريق، ونحن نقول جهاراً ، وقولنا حق ، أن حديث وابصة لم يرومن هذا الطريق أى طريق عمروبن مرة عن هلال عن زياد عن وابصة أصلا، وانه لا أصل بل ولا أثرله فى كتب الحديث ودواوينه ، فهو مما اخترعه الشيخ الكنديلى لعدم فهمه كلام الترمذى ، ونسأل أيضا من وافق  صاحب العرف الشذى ، أن يذكر لنا الذى خرجه من طريق عمروبن زياد عن وابصة .

وأما ماوقع فى نسخ الترمذى المطبوعة ، من قوله حدثنا محمد بن  بشارنا محمدبن جعفرناشعبة عن عمروبن مرة عن زياد عن وابصة، فهى زيادة لا أصل لها ، وهى خطأ كما نبهنا على ذلك فى جوابنا أولا،ويدل على كونها خطأ،أيضا أنه لم نجد فى كتب الرجال عمروبن مرة فى تلامذة زياد بن أبى الجعد، ولا زيادا فى شيوخ عمروبن مرة، فلانشك فى أن عمروبن مرة ، لا يروى عن زياد ،ومن ادعى أ ن عمروبن مرة، لا يروى عن زياد ،ومن ادعى أن عمرواهذا أخذالحديث عن زياد ، وأنه من تلامذته ، فليأتنا بدليل على ذلك ولايمكن له هذا أبدا. وإنى أتعجب من الشيخ الكنديلى، أنه لم يلتفت إلى ما كتبت فى جوابى تحت عنوان’’ تنبيه ،، نقلا تعليق الشيخ أحمدمحمد شاكر على جامع الترمذى.

ثم نقول : لوكان مقصود الترمذى ما ذكره الشيخ الكنديلى ، لكان كلام الترمذى هكذا ’’ لأنه (أى عمروبن مرة ) قد روى أيضا، عن هلال عن زياد عن وابصة، يعنى : أن حديث حصين عن هلال عن زياد عن وابصة أصح وأرجح من حديث عمروبن مرة هلال عن عمربن راشد عن وابصة ، لأن حصينا لم يروعنه خلاف ماذكر،وأما عمروبن مرة الذى روى عن هلال عن عمروبن راشد عن وابصة ، لأن حصينا لم يروعنه خلاف ماذكر ن وأما عمروبن مرة الذى روى عن هلال عن عمروبن راشد عن وابصة ، فقد روى خلاف هذا،أى روى عن هلال عن زياد عن وابصة ، موافقا لحديث حصين عن هلال فى السند .

ثم قال الشيخ الكنديلى: ’’ فالحديث الذى روى من طريقين أصح وأرجح من الحديث الذى روى من طريق واحد ،،انتهى ، وقال صاحب العرف : ’’ فالحديث الذى بطريقين أصح من الذى بطريق واحد،، انتهى .

قلت : ليست هذه قاعدة كلية ، فكم من حديث له طرق واسانيد، قدرجح عليه حديث له طريق واحد، وهذا إذا كان فى طريق فى الأول ضعف يسير ، قد انجبز بكثرة طرقه ، وبلغ بذلك الى درجة الحسن ، وكان طريق الثانى صحيحا لذاته فى أعلى مراتب الصحة، فان الترجيح فى مثل هذا للثانى ن وكذا إذا كانت طرق الاول ضعيفه جداً واهية ، وطريق قوية صحيحة.

ثم قال الشيخ الكنديلى :’’وبين الأمام الترمذى بعد ذلك،هذين الطريقتين بالسندين ،، انتهى .

لم يبين الشيخ ، أنه ماذا أراد بالطريقين وبالسندين ؟، ولم يوضح أنه كيف بين الترمذى هذين الطريقين بالسندين ؟ ، ولا أدرى ماوجه الإجمال والإبهام ؟ مع أن المقام مقام الكشف والإيضاح لا الابهام،والمحل محل الشرح والتفصيل لا الإجمال والإختصار، وإنى أعترف بأنه لم يتحصل لى من كلامه هذا شئ ، فان التعريف باسم الإشارة واللام فى قوله ’’ هذين الطريقين ،، يقتضى أن المراد بالطريقين ، الطريقان اللذان ذكرهما الشيخ قبل ذلك بقوله’’لأنه روى من طريقين : (1) طريق حصين عن هلال عن زياد عن وابصة

(2)وطريق عمروبن مرة عن هلال عن زياد عن وابصة ، لكن من المعلوم أن الترمذى لم يبين هذين الطريقين فيما بعد أصلا ، فإنه لم يذكربعد بيان وجه الترجيح إلا طريقا واحدا لا طريقين ، وهذا الطريق الواحد، هو طريق: ’’ عمروبن مرة عن هلال عن عمروبن راشد عن وابصة ،، على مافى النسخ الصحيحة لجامع الترمذى من سقوط الزيادة التى تقدم التنبيه عليها ، أو ذكر طريقين : الأول: طريق عمروبن راشد الذى ذكرناه آنفا، ولاشك أن هذين الطريقين ، غيرالطريقين الذين ذكرهما الشيخ ، وإن أراد بقوله أن الترمذى بين الطريقين ، أى طريق عمروبن مرة عن هلال عن زياد عن وابصة ، وطريق عمروبن مرة عن هلال عن عمروبن راشد عن وابصة ، أوأراد أن الترمذى بين طريق زياد عن وابصة وطريق عمروبن راشد عن وابصة بالسندين يعنى بين طريق زياد بسند محمد بن بشار عن محمد بن جعفر عن شعبة عن عمروبن مرة عن زياد عن وابصة ( على ما فى النسخة الأحمدية وغيرها من الزياد ) ، وبين طريق عمروبن راشد بسند محمد بن بشار عن محمد بن جعفر عن شعبة عن عمروبن مرة عن هلال عن عمروبن راشد عن وابصة ، ففيه أن هذايخفالفه ماتقدم فى كلام الشيخ أن فى طريق زياد عن وابصة واسطة هلال بين عمروبن مرة وبين زياد ، وسياق الزيادة التى قلنا أنها مما لا أصل له، صريح فى أنه لا واسطة  بينهما ، بل روى عمروبن مرة عن زياد مباشرة ، من غيرواسطة هلال .

وبالجملة قول الشيخ ’’وبين الترمذى هذين الطريقين بالسندين،،غيرميتقيم ، وإنى أظن انه أجمل الكلام هنا ، لأنه لم يمكن له تفصيل ذلك ، ولم يتمكن من توفيق ماعلق بذهنه ، بما وقع فى جامع الترمذى من سياق الكلام بعد ذلك، هذا وقد وافق الشيخ الكنديلى صاحب العرف الشذى فى أول شرحه ، وخالفه فى آخره ، كما لايخفى على من عارض وقابل شرح الشيخ ، بتقرير صاحب العرف ، وكلاهما قد ضلا عن مراد الترمذى ، وأخطأ فى فهم كلامه كما أوضحنا ذلك،وانتقدت شرح الشيخ باالعربية اتباعه له، ولم يكن لى بدمن هذا، قلا يلومنى أحد على ذلك.

مولانا نےشیخنا الاجل حضرت علامہ مبارکپوری ﷫ پراس توجیہ کےپیش کرنے اوران سےاس مقام کی شرح نہ کرنے کی شکایت کاتذکرہ فرمایا ہے،اورحضرت ممدوح کاجواب ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:

’’ ہمارا خیال اس طرف ( اس توجیہ کی طرف یااس مقام کی شرح کی طرف ) نہیں گیا۔مگر ہم نے اس کی طرف ) اس توجیہ کی طرف یا اس مقام کی شرح کی طرف) اشارہ کردیا ہےکہ فعل ’’روی،، کو ہم نےمعروف لکھا ہے۔ (روی فعل معروف اورمجہول دونوں کی کتابت یکساں اوردونوں کارسم خط ایک ہے) اس پرہم نےاعراب دےدیاہے،، ( یہ ضبط بالقلم : یعنی : ضبط بالحرکات ہےجوچنداں قابل وثوق نہیں ، اصلا لائق اعتماد ضبط باللفظ ہوتاہےاوروہ یہاں موجود نہیں ) ۔

مولانا کی ’’ ثقاہت ،، کےپیش نظر تواس ’’ حکایت ، ، بارے میں شک کرنا مشکل ہے،لیکن ’’درایہ ،، ہمیں اس امر میں تامل ہےکہ حضرت شیخ نےوہ کچھ فرمایا جو اس غلط توجیہ کی تقویت کےلیے اس ’’ داستان ،، میں ان کی طرف بصورت الفاظ مذکورہ مسنوب کیاگیا ہےبین القوسین کچھ اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ مختصرا کچھ اوربھی عرض ہے:

یہ قصہ اگرپیش آیا ہوگا تواس وقت جبکہ حضرت تحفہ جلد ثانی کی طباعت کےلیے دہلی تشریف لے گئے تھے، اور ان دنوں ضعف بصر کی شکایت آپ کوشروع ہوچکی تھی ، خود کوئی تحریر اچھی طرح نہیں پڑھ سکتےتھے ، اورنہ لکھ سکتے تھے ۔ نہ معلوم آپ اس توجیہ کوحضرت پرواضح طریقہ پرپیش کرسکے یانہیں ؟ اورحضرت نےغور سےسنایا نہیں ؟ اورسننے کےبعد بطور خودناقدانہ نظرڈالنے کاموقع آپ کاملایا نہیں ؟ان احتمالات کی بناء پریقین نہیں ہوتا کہ جناب کی پیش کردہ توجیہ سن کر حضرت نےوہ کچھ فرمایا، جوآپ نےان کی طرف منسوب کیا ہے۔ حضرت کی ایک بڑی امتیازی خصوصیت یہ تھی مسائل ، فتاویٰ اوراہم علمی مباحث میں عاجلانہ فیصلہ نہ فرمانا ، بلکہ انتہائی غوروخوض اورتدبر اورامعان نظر کےبعد فیصلہ اورحکم صادر فرمانا اورمخالف یاموافق رائے قائم کرنی ۔ مخالف کی تحریر کوکڑی تنقید ی نظر سے ملاحظہ فرمانا اورغوروفکر کےبعد اٹل اورجنچی تلی رائے کااظہار اوران میں غایت درجہ کی احتیاط۔اس حقیقت کےپیش نظر راقم السطور کےلیے اس کاباورکرنا مشکل ہےکہ حضرت نےکیف مااتفق آپ کی زبان سےیہ توجیہ سن کر اس پرصادر فرمادیا ہواور’’روی ،، کی اعراب دےکر اس مقام کی شرح نہ کرنے کی تلافی کی اور اس توجیہ کی طرف اشارہ کردینے کی خبر دےدی ہو۔ اس قسم کی ’’ چلتواوردرسگاہی باتین کرنا،، حضرت کاشیوہ نہیں تھا ۔

ونیز تحفہ کا متن جامع ترمذی مطبوعہ مطبع احمد 1266 ہجری کی نقل ہے۔اس میں جابجا اعراب لگایا ہواہے ان میں بعض غلط بھی ہیں جن کوتحفہ کےمتن میں درست کردیا گیا ہے، اورکہیں بےخیالی کی وجہ سےاتفاقی طورپر’’ نقل مطابق اصل ،، غلط اعراب چھپ گیا ہےکما ستعرف ، قصداً وہ اعراب باقی نہیں رکھاگیا ہےاورحضرت نےتحفہ کےمتن میں شاذ ونادر اعراب لگایا ہے۔ اعراب دے کرضبط کرنے کااعراب وخیال توقطعا نہیں تھا ۔

عبارت مبحوثہ عنہا مین ’’ روی ،، کواحمدیہ نسخہ میں اعراب دے کرضبط کیاگیا ہے، جوغلطی ہےاس کےطابع وناشرومحشی مولوی  احمدعلی صاحب مرحوم سہارنپوری محشی بخاری کی ۔ کاتب نےاحمدیہ نسخہ میں جب لکھا ہوا دیکھا ، ویسا ہی تحفہ کےمتن میں نقل کردیا اور حضرت کواس طرف توجہ نہیں ہوئی قصداً آپ نےیہ اعراب باقی نہیں رکھا ہے۔بلکہ جیسے اوربعض محتاج شرح وضبط مقامات کی تحقیق وضبط اتفاقی بے خیالی کی وجہ سے سےرہ گئی ( اور اس حادثہ سےشاید ہی کوئی شارح محفوظ رہا ہو) ، اور جیساکہ احمدی نسخہ میں تھا ویسا ہی کاتب نےلکھا اور چھپا ۔

یہی اس مقام کےساتھ بھی پیش آیا ہے۔جب حضرت کاخیال اس مقام کی شرح کی طرف گیا ہی نہیں ، جیسا کہ مولانا نےآپ کی طرف منسوب فرمایا ہے، توشرح کی تصنیف کےوقت ’’ روی ،، کواعراب دےکر اس مقام کی شرح کی طرف یا اس توجیہ کی طرف اشارہ کرنے کا خیال آگیا؟ بہرکیف آپ نےاپنے قلم سےیہ اعراب نہیں دیا ہے، بلکہ یہ احمدی نسخہ کی نقل ہے۔ اورنہ آپ نےقصدا یہ اعراب باقی رکھا ہے،بلکہ یہ بے خیالی سے باقی رہ گیا ہے۔

چند مثالیں ملاحظہ کےلیے عرض کی جاتی ہیں :

(1)  احمدی نسخہ ص : 1227 اورمتن تحفہ ص : 277 دونوں میں ’’مامن يَغلِقُ بَابَه،، مطبوع ہوگیا ہےحالانکہ اس حدیث کےآخر میں ’’ إلا أغلق الله أبواب السماء ،، موجود ہےجس سے باب کی تعیین ہوجاتی ہے، اوریہ بھی معلوم ہےکہ ’’ غَلَقَ یِغَلِقُ ،، لغۃ رویۃ ہے جوشاذ ونادراستعمال ہوتی ہےپھر اصح من نطق بالضاد کےکلام میں ’’  اغلق ،، لغت فصیحہ موجود ہوتےہوئے’’یغلق ،، کاضبط غلط نہیں تو اورکیا ہے، اس کوبے خیالی پرمحمول نہ کیا جائےتوکس پرمحمول کیا جائے!! ۔

(2)  احمدی نسخہ ص : 1185 اورمتن تحفہ ص : 178 دونوں میں ’’من يهده ن ى الله ،، مطبوع ہے، اوریہ ضبط خلاف قاعدہ ہے، ہونا  یوں چاہیے : من يهده ن ى الله ۔ چنانچہ شرح میں قاعدہ کےمطابق اٹھایا گیا ہے(من يهدى الله)لکھ کراختلاف نسخہ دیا گیا ہے۔

(3)  احمد ی نسخہ ص : 115 اورمتن تحفہ 2؍20 دونوں میں ليَثرى به ماله ،، بفتح الياء مطبوع ہے۔جوغلط ہےاورشرح میں ’’ ليثرى ،، اٹھا کر’’ من الإثراء ،،لکھا  گیا ہے۔اس لیے اس کا صحیح ضبط یوں ہوگا : ’’ لیثری ،، .

(4)  نسخہ احمدی  اور متن تحفہ 2؍ 365 دونوں میں ’’ فإن لم يُتهيأ ، بضم الیاء مطبوع ہے اور یہ غلط ہے۔

آخر میں مولانا حدیث ’’ وابصہ ،، کی سند کے اخلاف  واضطراب کویوں دفع فرماتے ہیں :’’ لا بعد فى كونهما صحيحين ، بأن يكون هلال أخذ من زياد بن أبى الجعد وعمروبن راشد كليهما ، وأخذ عمروبن مرة وحصين كلاهما عن هلال بن يساف ،، انتهى .

قلت : نعم لابعد فى ذلك بل هو المتعين ، لكن لايلزم من ذلك أن عمروبن مرة أخذ هذا الحديث عن هلال عن زياد عن وابصة كما توهم .

پھر مولانا نےاس فقرکایوں شکریہ ادا کیا ہے:’’ ہم آپ کےبہت ہی مشکور ہیں کہ آپ نےاس قسم کےمذاکرات علمیہ پیش کرکے قوم میں ایک علمی بیداری پیدا کی ۔،،

اس فقیر نےوہ تحریر ’’ مذاکرہ علمیہ ،، کےطو ر پرنہیں پیش کی تھی ۔ وہ تو صرف ایک استفسار کاجواب تھا جس پرجناب نےتعاقب فرمایا ۔

مذاکرۂ علمیہ کا عنوان مدیر ’’ مصباح ،، نےقائم کیا ہے۔ اوردو ایک استفسارات کےجوابات سےقوم میں کیا بیداری ہوگی ؟ ہاں  جناب کے تعاقب کی مندرجہ ذیل عبارت سےشاید قوم کو کچھ غیرت آجائے  اورلوگوں میں  کچھ بیداری پیدا ہوجائے۔آپ فرماتےہیں :’’ آہ آج علمی مذاق علماء اہل حدیث میں فن حدیث کےمتعلق نہیں رہا ۔اکثر ہمارے مدرسین کی تعلیم سطحی ہوتی ہےمفہوم کتاب کونہیں سمجھتے ہیں ۔ ،،

مولانا ! لکھتےوقت آپ کوخیال نہ رہا ، آپ اب سوچئے کہ یہ کیا کچھ لکھ گئے ہیں ، عام  مدرسین  اہل حدیث کےمتعلق یہ محکمانہ فیصلہ فرماکرکہ ان کی تعلیم سطحی ہوتی ہےاوروہ مفہوم کتاب کونہیں سمجھتے ، آپ نے کس کوتقویت پہنچائی ہے؟ مقلدین کو،ان کے طعنوں اورہفوات کی تصدیق فرما کرہمیشہ قائم رہنے والی ایک دستاویزدےدی ہے۔ انا اللہ الخ ۔ جناب نےاخبار اوررسالہ کوبھی درس گاہ سمجھ لیا کہ طلبہ کے سامنے درسگاہ کےاندر زبان پرجوکچھ آیا کہتےگئے ، اسی طرح اخبار اوررسالہ میں بھی لکھتے چلے گئے اورانجام پرغور نہیں کیا۔ اس کی شکایت مدیران ’’الھدی ،، و’’مصباح ،، ٭ سےبھی ہےکہ انہیں بھی اس کااحساس نہیں ہوا، اوران کوبھی صحافی وجماعتی ذمہ داری کاخیال نہیں رہا ۔ آخر میں یہ عرض کرنا ضروری ہےکہ یہ تنقید محض نصحا لطلبة العلم ونصحا للجماعة لکھی گئی ہے. مولانا کھنڈیلوی یااورکسی بزرگ کواس میں کچھ تلخی محسوس ہوتو معاف فرمائیں گے کہ بالقصد تلخی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے عفا الله عنى وعن سائر المسلمين .

                                                (مصباح بستى شوال وذى القعده 1371ھ )

                                                   ٭٭٭٭٭٭٭

 ٭حضرت مولانا کھنڈیلوی کاعربی مقالہ واپس کردیا گیاتھا اوریہ عرض کیاگیا تھاکہ ترجمہ فرماکرارسال فرمائیں۔ہماری دلی خواہش تھی کہ موصوف کایہ تعاقب ضرور شائع ہو،مگر ہمیں شدید انتظار کےباوجود مضمون نہیں ملا، بلکہ ’’الہدیٰ ،، دربھنگہ میں شائع ہوا، مدیر نےبغیر غور کے’’ الہدی ،، کاتراشہ کاتب کےپاس بھیچ دیا، تصحیح کےوقت بالعموم نظرالفاظ کی تصحیح اورترتیب پرہوتی ہےچنانچہ مولانا کھنڈیلوی کااتنا سنگین الزام بغیر ادارتی نوٹ کےشائع ہوگیا ، جس کی میں علماء اہل حدیث اورمدارس اہل حدیث کےاساتذہ سےمعافی چاہتاہوں ۔غورفرمائیے مولانا کھنڈیلوی فرماتےہیں کہ : ’’اکثر ہمارے مدرسین کی تعلیم تطحی طریق پرہوتی ہےمفہوم کتاب کونہیں سمجھتےہیں ۔ ،،یہ ہےالزام ، انا للہ ، اکثر کالفظ اتنا جامع ہےکہ مولانا کھنڈیلوی جیسے گنے چنے علماء کوچھوڑکربقیہ دارالسلام عمرآباد، مدرسہ فیض عام ومدرسہ عالیہ مئو، مدرسہ محمدیہ عربیہ رائیدرک ، رحمانیہ دہلی وغیرہ چھوٹے بڑے تمام مدرسوں کےاساتذہ کی تعلیم سطحی ہے یہ بیچارے کتاب کا مفہوم نہیں سمجھتے بس قال قال جانتے ہیں ، ’’اکثر ،، کالفظ اتنا جامع ہےکہ خود احمدیہ سلفیہ کےمدرسین بھی اس کی زد سےباہر نہیں ، جس میں مولانا بھی درس دیتے ہیں اس سے بڑھ کرکوئی غیر اورکیا الزام لگائے گا جو مولانا نےلگایا ہے۔ہم مولانا عبیداللہ صاحب رحمانی کےمشکور ہیں کہ آپ نے ہمیں اپنی صحافی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی ، اور اہل حدیث کےتما م مدارس کےاساتذہ اورعلماء سے معافی کاہم کوموقع ملا ۔ جزاک اللہ ۔ عبدالجلیل رحمانی مدیر’’ مصباح ،،

                                محاکمئہ سامرودیہ پرایک سرسری نظر

قارئین ’’ مصباح  ،، کویادہوگا کہ ترمذی ’’ ماجاء فى الصلوة خلف الصف وحده ،، میں حضرت وابصہ بن معبد کی حدیث کی سند میں اختلاف اوراس پرامام ترمذی کی کلام کےمتعلق ایک استفسار کےجواب میں ، راقم الحروف کامفصل مضمون ’’ مصباح ،، جلد: 1شمارہ نمبر: 4 میں شائع ہوا تھا ۔اس جواب پرمولانا کھنڈیلوی نےتعاقب لکھا جوپہلے ’’ الھدی ،، دربھنگہ میں ، پھر’’ مصباح ،، جلد : 1 شمارہ نمبر 8؍9 میں شائع ہوا، پھر اس تعاقب کاجواب ’’ مصباح ،، ج : 1 ، ش : 10 ؍ 11 میں شائع کیا گیا اس کےبعد مولانا شامرودی نےبغیر کسی کی تحریک وفرمائش کے، اس سلسلے میں مضمون لکھنے کی زحمت گوارہ فرمائی ۔ اس مضمون کومدیر ’’ مصباح ،، نے’’ محاكمه سامروديه ،، کے عنوا ن سے’’ مصباح  جلد :  2 ش : 3 میں شائع کیا ۔ آج اسی ’’محاکمہ ،، پرہم مختصر اً کچھ عرض کرناچاہتےہیں ۔ ’’ مصباح ،، کے اہل علم قارئین میں سے جن بزرگوں کواس سلسلے سے دلچسپی ہے، امید ہےکہ وہ اس کو بنظر انصاف ملاحظہ  فرمائیں گے۔ اس مضمون کی تحریر میں دیر صرف اس وجہ سے ہوئی کہ ہم کو حافظ جمال الدین المزی کی ’’ تحفة الأشراف بمعرفة الأطراف ،، اور اس پرحافظ ابن حجر عسقلانی کی ’’ النکت الظراف ،، کےمطالعہ کی توفیق اخیر شعبان 1372ھ سےپھلے میسر نہیں ہوسکی ۔کاش ! حافظ کی ’ ’ اتحاف المهرة بأطراف العشرة ،، کے مطالعہ کی سعادت بھی حاصل ہوگئی ہوتی ۔

(1)  مولانا سامرودی نےجامع ترمذی کے اس مقام کےحل کےبارے میں ہمارے اورمولانا کھنڈیلوی کےدرمیان پیدا شدہ اختلاف کو’’ الفاظی اور سطحی ،، قرار دیا ہے جس کا یہ مطلب ہواکہ ہمارا یہ اختلاف معنوی اورحقیقی نہیں ہے بلکہ صرف بادی النظر میں اختلاف ہے۔ ہمیں تعجب ہے کہ مولانا نےیہ الفاظ کیسے تحریر فرمائے ، درانحالیکہ اس فقیر کی تائید میں خود ہی یہ بھی لکھا ہےکہ لفظ ’’ روی ،، بالبناء للمفعول  ہی اس  محل میں صحیح ہےاس کوبالبناء للفاعل بنانا امام ترمذی کےمفہوم کومخیل کرنا ہے؟ ظاہر ہےکہ اس صورت میں ہمارے اورمولانا کھنڈیلوی کےدرمیان یہ اختلاف معنوی اورحقیقی ہوانہ کہ ’’الفاظی سطحی ،، شاید مولانا لفظی ومعنوی اورسطحی وحقیقی اختلاف کےمتعارف معنی اوران کےدرمیان فرق سے ناواقف ہیں توہیں لیکن یہ سب کچھ بےخیالی میں لکھ گئے ہیں ۔

(2)  مولانا سامرودی فرماتے ہیں :’’ اس ختلاف سےمجھے ایسا معلوم ہوتاہےکہ

کچھ قلبی سطح پراثر ہے.... ... مگر ترچھی نظر کسی کی طرف کرنا تحقیقات علمیہ کی بنا پربری بات ہے۔،،

تعاقب کےجواب میں قدرےتلخی اورشدت پیدا ہوگئی تھی ، غالباً مولانا سامرودی نےاسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔اس کےمتعلق یہ عرض ہےکہ ایسے مسئلہ میں جوزیادہ غور فکر کامحتاج نہ ہو بلکہ تقریبا بدیہی ہو، غلط روی اختیار کرنے والے کواس کی غلطی پرتنبیہ کرنے میں شد ت وخشونت اختیار کرنا ہمارےنزدیک شرعاً معیوب اوربُر بات نہیں ہے۔ اسلامی شریعت میں اس کےنظائر موجود ہیں ۔

مولانا سامرودی جیسے محدث کبیر سےیہ چیز مخفی رہنی چاہیے تھی ۔ ہمیں افسوس ہےکہ مولانا نےاس ظاہری تلخی کواچھے پہلو پرمحمول نہیں فرمایا ۔ بہرحال مولانا کی یہ رائے خلاف واقعہ ہے۔ ہمارے خیال میں وہ بغیر اس فراغت صادقہ کےاظہار کےبھی ’’محاکمہ ،، کوشوق پورا فرماسکتے تھے ۔والعلم عنداللہ .

(3)   مولانا سامرودی نےامام ترمذی کےکلام ’’ لأنه قدروى من غير حديث هلال،، الخ میں لفظ ’’ روی ،، کےفعل مجہول ہی ہونےکوصحیح قرار دیتے ہوئے لکھا ہےکہ ’’روی ،، کوفعل معروف بنانا مفہوم کومخیل کرنا ہے۔،،

ہمارے نزدیک یہ چیز زیادہ غوروفکر اوربحث ونظر کی محتاج نہیں ہے،بہرکیف اللہ تعالیٰ کاشکر ہےکہ مولانا نےوہی سمجھا جواس  مقام کےسیاق وسباق اوراس حدیث کےطرق پراور ایسے مواقع میں امام ترمذی کےطرز کلام پرگہری نظر رکھنے کامقتضیٰ ہے۔

 اس محاکمہ میں اہل علم کوچاہئے کہ کوئی نئی دلیل اورنئی بات نہ ملے،مگر اس کااتنا فائدہ توضرور ہواکہ مولانا کھنڈیلوی کواب ’’ روی ،، کےفعل معروف ہونے پراصرار نہ رہا۔چنانچہ اپنے گرامی نامہ میں تحریر فرماتے ہیں :  ’’  وأنا الآن أسلم أن لقظ روى يمكن أن يكون مجهولا كما قلتم ، لكن هذا الأمر مرجوع عندى ، والرجح عندى ماقلت ،،.

(4)   ہم نےاستفتاء کےجواب کےآخر میں تنبیہ کےزیرعنوان لکھا تھا کہ نسخ مطبوعہ میں یہ عبارت :’’ حدثنا محمد بن بشار حدثنا محمدبن جعفر حدثنا شعبة عن عمروبن مرة عن زياد بن ابى الجعد عن وابصة قال ،، بےاصل ہے،نساخ کی

غلطی سے اس کااضافہ ہوگیا ہے۔اس بناء پرہمارا دعویٰ تھاکہ عمروبن مرہ نے اس حدیث کوصرف ایک طریق (وہی طریق ہلال بن یساف عن عمروبن راشد عن زیاد عن وابصۃ ) سےروایت کیا ہے۔اورجامع ترمذی میں ان کی روایت کےدوطریق نہیں ہیں جیسا کہ مولوی انورشاہ مرحوم صاحب العرف الشذی نےسمجھا ہے۔خلاصہ یہ کہ وابصہ بن معبد کی حدیث جامع ترمذی میں دوطریق سےمروی ہے۔

عبارت مذکورہ کےبےاصل ہونےکاقرینہ ہم نےیہ لکھا تھا کہ ترمذی کےتین صحیح نسخے جن میں سے دوقلمی ہیں اس سے زیادہ سےخالی ہیں ۔

مولانا کھنڈیلوی کےتعاقب سےیہ ظاہرہواکہ وہ اس زیادۃ کوصحیح سمجھتےہیں اوردرحقیقت ان کی ساری تقریر اورغلط فہمی کی بنیاد یہ زیادۃ ہے۔مولوی انورشاہ مرحوم نےبھی اس مقام کی تقریر اسی عبارت کی روشنی میں کی ہے اوربلاشبہ مولانا کھنڈیلوی نےانہیں کےتقلید کی ہے گوآخرمیں قصداً یابلا قصد بسبب عدم فہم کےان کاخلاف کرگئے ۔ واللہ اعلم ۔

ہم نے تعاقب کےجواب میں اس عبارت کےغلط ہونے کا دوسرا قرینہ یہ ذکر کیا تھا کہ:اصحاب کتب رجال نےعمروبن مرہ کوزیادۃ بن ابی الجعد کےتلامذہ میں اورزیاد کوعمروبن مرۃ کےشیوخ میں ذکر نہیں کیا ہےاگر کسی کواس پراصرار ہےکہ عمروبن مرۃ نےیہ حدیث زیاد سےروایت  کی ہےاور وہ ان کےتلمیذ ہیں تواس پردلیل پیش کرے۔ مولانا سامرودی بھی اس عبارت کوصحیح سمجھتے ہیں اورلکھتے ہیں کہ  ترمذی نے حدیث عمروبن مرۃ کودوطریق سےبیان کیا ہےپھر ہمارے بیان کردہ قرینہ کی یوں تردید کرتےہیں :

’’ عمروبن مرۃ کےزیاد سے روایت کرنے میں تردید کیا جاتا ہے کہ عمروکا زیاد کےتلامذہ کےفہرست میں ذکر نہیں ، لیکن عدم ذکرعدم کومستلزم نہیں ۔عمروبن مرۃ کےصغارتابعین سےہونے اوران کےسالم بن ابی الجعد سےروایت کرنےمیں شبہ نہیں ۔ زیادسالم کےبھائی ہیں اس لیے عمروبن مرہ کازیاد سےروایت کرنا مستبعد نہیں ہے،، .

مولانا سامرودی سےشاید یہ امرمخفی ہےکہ عدم ذكر الشئ لايستلزم عدمه  قاعدہ کلیہ نہیں ہےبعض ایسی صورتیں بھی ہیں کہ وہاں عدم ذکرشئی اس شئی کےعدم کی دلیل وقرینہ ہوتا ہے۔مثلاً : ذکرونقل کےدواعی و مقتضیات موجود ہوتےہوئے ذکرنہ کرنااور نقل سےسکوت اختیار کرنا دلیل ہےاس شے کےعدم وجود کی ۔ وهذا لايخفى على من له نظر فى كتب الاصول ۔ تمام اصحاب کتب رجال حدیث کا زیاد بن ابی الجعد کےدوہی  تلمیذ عبید اورہلال بن یساف  کےذکر کرنے پراقتصار کرنااور’’وغیرھما،،یا ’’آخرون ،، یا’’ جماعۃ ،، آخر میں نہ لگھنا صریح اورقوی قرینہ ہےاس امر کازیاد سےکوئی تیسرا شخص روایت نہیں کرتا ۔عمروبن مرۃ کویادہ کاتلمیذ قراردینے کی بنیاد اس دنیا میں صرف ترمذی کی یہ عبارت مبحوث عنہا ہےاوربس۔مولانا  سامرودی نےاس دعویٰ پرکوئی دلیل نہیں پیش کی ،صرف یہ لکھا کہ عمروبن مرۃ تابعی صغیر ہیں او رزیاد کےبھائی سالم سےروایت کرتےہیں اس لیے ان کازیاد سےروایت کرنا مستبعد نہیں ہے۔

عرض یہ ہےکہ یہاں صرف امکان واحتمال اورعدم استبعاد کادعویٰ کافی نہیں ہوسکتا۔نقل صریح اورکتب رجال سےاس کی تصدیق کی ضرورت ہے،صرف یہ کہہ دینا مخالف کےنزدیک کوئی وزن نہیں رکھتا چوں کہ عمرو ایک بھائی سےروایت کرتےہیں اس لیے بعید نہیں کہ دوسرے بھائی بھی روایت کرتے ہوں ، ورنہ جہاں دوبھائی راوی حدیث ہوں وہاں تلمذ کےادعا کےلیے یہ کہنا صحیح ہونا چاہیے کہ چوں کہ فلان شخص فلاں کاتلمذ ہےاس لیے بعید نہیں کہ وہ اس کےبھائی کابھی تلمذ ہو۔لیکن جہاں تک ہمیں معلوم ہےکسی محدث نے اس طرح تلمذ اورتحمل حدیث واخذ روایت کااثبات نہیں کیاہے۔عبداللہ العمری اوران کےبھائی عبیداللہ دونوں رواۃ حدیث میں سےہیں ۔ مولانا بتلائیں کہ ان دونوں کےدرمیان کتنے تلامذہ میں اشتراک ہے؟

مولانا کھنڈیلوی اپنے مکتوب میں ہمارے پیش کردہ پہلے قرینے پرکلام کرتےہوئے لکھتےہیں کہ اس عبارت کےتین قلمی نسخوں میں نہ ہونے سےیہ سمجھنا کہ یہ عبارت غلط ہےصحیح نہیں ۔ لأن عدم الذكر لايستلزم عدم ذكره (؟) ونيز ترمذى کےنسخے متعدد ہیں اگر کسی  نسخے میں زیادتی اس سند کی نہیں ہوئی تویہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ اس کی کوئی اصل نہیں اوریہ زیادۃ خطا ہے۔ والمثبت مقدم على النافى .

عرض یہ کہ نسخوں کےاختلاف کےموقع پرہرزیادۃ کےمتعلق ہم   نے یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں بیان کیا ہےکہ جوعبارت ان تین نسخوں میں نہ ہوگی وہ خطا اوربےاصل ہوگی ولا يدعى ذلك إلا مجنون ، زیادات مختلف قسم کی ہوتی ہیں اس لیے ان کےاحکام بھی مختلف ہوتےہیں ۔یہاں ایک خاص زیادۃ کےبارے میں بحث ہورہی ہے،یعنی : ایسی زیادۃ کےمتعلق جس کےبے اصل ہونے پرکئی قرینے موجود ہیں ، اس لیے ہمارے نزدیک اس کاغلط ہونا متعین ہے   والمثبت إنما يقدم على النافى ، إذا كان فى قوة النافى وفى مرتبة أو أقوى منه ، لا إذا كان دونه ، وانسخ المطبوعة من طبعات الهند ومصر ، لاتساوى النسخ الخطية المصححة التى ذكرها الشيخ أحمد محمد شاكر فى تعليقه على الترمذى ، وكذا يقدم المثبت ، إذا لم تقم قرينة تقتضى تقديم النافى وترجيحه ، وهاهنا قد وجدت قرائن تقتضى كون الزيادة المذكورة خطأ ، فتقدم هاهنا النسخ الثلاثة المصححة على النسخ المطبوعة .

آج ہم اس عبارت کےخطا ہونے پراورعمروبن مرۃ کےزیاد سےحدیث نہ روایت کرنے پرتیسری دلیل پیش کررہے ہیں ۔ امید ہےدونوں مولانا غورفرمائیں گے ۔

 تتبع کےبعد کتب حدیث کےسولہ قسمیں نکلتی ہین ان  میں سےایک قسم ’’ اطراف،،بھی ہےاس کامعنی اورمفہوم اہل علم سےمخفی نہیں ۔

خلاصہ یہ ہےکہ ’’ اطراف ، ، میں ہرہرحدیث کےاس قدر ٹکڑے کےذکر کرتےہیں جواس کےباقی حصے پردلالت کرےاوران کی تمام سندوں کی استیعاباً مخصوص کتابوں کےساتھ مقید ومخصوص کرکے جمع کردیتےہیں۔ ہمارے سامنے اس وقت حافظ جمال الدین المزی کی ’’اطراف ،، ہے۔ انہوں نے مسند وابصہ میں حضرت وابصہ کی اس حدیث کےترمذی سےدوہی طریق نقل کیے ہیں :

(1) محمدبن بشار عن غندر عن شعبة عن عمروبن مرة عن هلال بن يساف عن عمروبن راشد عن وابصة.

(2)  هناد عن أبى الأحوص عن حصين عن هلال بن يساف عن زياد عن  وابصة.

معلوم ہواکہ مزی کےسامنے جامع ترمذی کا جومعتمد نسخہ اس میں اس حدیث کی صرف دوہی سندیں مذکور تھیں۔ تیسری کوئی سند مذکور نہیں ، یعنی : عبارت مبحوثہ عنہا جس سے ایک تیسری سند’’ عمروبن مرۃ عن زیاد عن وابصۃ ، کا ثبوت ہوتاہے موجود نہیں تھی ۔

اگر جامع ترمذی میں یہ حدیث اس تیسری سندسے مروی ہوتی توحافظ مزی اس کوضروی نقل کرتے ، اور اگر بالفرض مزی سےیہاں تسامح ہوگیا ہےتوحافظ ابن حجر اپنی ’’نکت ،، میں اس پرضرور تنبیہ فرماتے ۔ لیکن حافظ نےاس مقام کو’’نکت ،، میں چھواتک نہیں ۔ معلوم ہواکہ حافظ کےنزدیک بھی ترمذی میں یہ حدیث کل ودہی سندوں سےمروی ہے۔ اسی  سےیہ بھی معلوم ہوگیا کہ عمروبن مرۃ کازیاد بن ابی الجعد سےحدیث روایت کرناثابت نہیں اورجو شخص اس کادعویٰ کرتا ہے بےبیناددعویٰ کرتاہے۔حافظ مزی کی ’’ اطراف ،، کی اصل عبارت درج ذیل ہے:

’’ د ت ق ،،

حديث: أن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رأى رجلاً يصلي خلف الصف وحده، فأمره أن يعيد (د) في الصلاة (101) عن سليمان بن حرب وحفص بن عمر، كلاهما عن شعبة، عن عمرو بن مرة، عن هلال بن يساف، عن عمرو بن راشد، عن وابصة به

ت فيه (الصلاة 56: 2) عن محمد بن بشار، عن غندر، عن شعبة به. و [76]- (56: 1) عن هناد، عن أبي الأحوص، عن حصين، عن هلال بن يساف قال: أخذ زياد بن أبي الجعد بيدي - ونحن بالرقَّة، فقام بي على شيخ يقال له: وابصة، فقال زياد: حدثني هذا الشيخ - والشيخ يسمع: أنّ رجلاً صلى ... فذكر معناه وقال حسن، وقد روى غير واحد حديث حصين عن هلال مثل رواية أبي الأحوص عن زياد. واختلف أهل العلم في هذا فقال بعضهم: حديث عمرو بن مُرَّة أصح. وقال بعضهم: حديث حصين أصح، وهو عندي أصح من حديث عمرو،( ههنا بياض والظاهرأنه سقط ههنا لفظ : لأنه)  لأنَّه قد رُوي من غير وجه حديث هلال، عن زياد، عن وابصة.

ق فيه (الصلاة 93: 2) عن أَبي بكر بن أبي شيبة، عن عبد الله بن إدريس، عن حصين، عن هلال بن يساف وقال: أخذ بيدي زياد ... فذكره - وليس فيه أخبرني هذا الشيخ كأن هلالاً رواه عن وابصة نفسه.(تحفة الأشراف بمعرفة الأطراف للمزى ) .

                                                (کتب خانہ خدابخش خان بانکی پور،پٹنہ )

اس عبارت میں ’’ قدر وى عن غيروجه حديث هلال عن زياد ’’ الخ ہے اورزیلعی میں ’’من غيروجه عن  هلال عن وابصة ،، الخ ہے۔ اورترمذی کےموجودہ نسخوں میں ’’قدر وى من غير حديث هلال عن زياد ،، الخ ہے ولا تخالف بينها وهذا لايخفى على من رزقه الله فهما صحيحا .

                                ( مصباح بستى ج:2،ش:12ذی القعدہ ؍1372ھ)

٭ نمازی کےآگے سےگزرنا عرضا یعنی : دائیں سےبائیں سےدائیں جانا منع ہے۔ اس کےدائیں بائیں پہلوسے جاکر اس کےآگے گھڑا ہوجانا یا وہاں جاکر بیٹھ جانا یا اس کےآگے بیٹھنا ہواہوتوہاں سے اٹھ کراورآگے چلا جانا وہاں سےاٹھ کراس کےدائیں یابائیں پہلو آجانا اس کی ممانعت صراحتہ کسی حدیث میں نہیں ہے، لیکن اس میں ہے ایسا کرنے سے بھی پرہیز کیا جائے ۔    (محدث بنارس شیخ الحدیث نمبر)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 274

محدث فتویٰ

تبصرے