سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(164)تشہد میں انگلی اٹھانا

  • 17186
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 768

سوال

(164)تشہد میں انگلی اٹھانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تشہد میں جوانگلی شہادت اٹھائی جاتی ہے، بعض حنفی منع کرتے ہیں ، اس کےثبوت اور دلیل سےمطلع فرمایا جاوے۔ کرنے والے حق بجانب ہیں یا منع کرنےوالے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 تشہد میں شہادت کی انگلی کااٹھاکر اشارہ کرنا مشہور سنت نبوی ہے۔ متعدد صحابیوں سے رفع سبابہ کی حدیثیں صحیح مسلم وغیرہ میں مروی ہیں ۔اسی لیے تمام صحابہ اورتابعین وابتاع تابعین اورچارائمہ سا کےقائل اورعامل تھے ۔البتہ بعض حنفیہ نے ناواقفیت کی وجہ سے کے خلاف فتویٰ دیا تھا۔ جس کی محققین علمائے حنفیہ نےاچھی طرح تردید کردی ہے ۔امام  محمد اپنی موطا(3) میں اشارہ سےمتعلق  عبداللہ بن عمر کی حدیث ذکر کرنے کےبعد لکھتے ہیں  : ’’ وبصنع رسو ل الله صلى الله عليه وسلم نأخذ ، وهو قول أبى حنيفة ،،انتهى – اس پرملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں : ’’ وكذا قول مالك والشافعى وأحمد ،ولا يعرف فى المسئلة خلاف السلف من العلماء ، وإنما خالف  فيها بعض الخلف فى مذهبنا من الفقهاء ن،،انتهى –

مولوی عبدالحئ صاحب مرحوم حاشیہ موطا امام محمدی (1؍ 464 ) میں لکھتے ہیں :’’أصحابنا الثلاثة يعنى اباحنيفة وأبا يوسف ومحمد ، اتفقوا على تجويز الإشارة ، لثبوتها عن النبى صلى الله عليه وسلم  وأصحابه بروايات متعددة ن وقد قال به غيرواحد من العلماء ، حتى قال ابن عبدالبرانه لاخلاف فى ذلك ، وإلى الله المشتكى من صنيع كثير من أصحابنا من أصحاب الفتاوي ،  كصاحب الخلاصة وغيره ، حيث ذكروا أن المختار عدم الإشارة ، بل ذكربعضهم أنها مكروهة ، فاالحذر الحذر من الإعتماد على قولهم فى هذا المسئلة ،،انتهى –

اسی طرح دیگر علمائے حنفیہ نےبھی منع کرنے والوں کی تردید اور تجہیل  کی ہے۔بعض نےاس پرمستقل رسالے بھی لکھے ہیں ۔

چنانچہ ملا علی قاری حنفی اپنے رسالہ ’’ تزئين العبادة لتحسين الإشارة ،، میں لکھتےہیں :’’ وبالجملة فهو مذكور فى الصحاح الست وغيرها ،لما كاد أن يكون متواترا ، بل يصح أن يقال إنه متواتر معنى ، فكيف يجوز لمومن بالله ورسوله أن يعدل عن العمل به ، ويأتى التعليل فى معرض النص الجليل ،، انتهى . ( محدث دہلی ج:10ش: 12، ربیع الآخر1366ھ؍مارچ1947ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 257

محدث فتویٰ

تبصرے