السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فخذ ین پرمابین السجدتین ہاتھ کس شکل سے رکھنے چاہئیں ۔ آیا خمسین وغیرہ کی گرہ لگا کر ؟ یا سادے طور پر کما ھما ؟ اس کی دلیل مع حوالہ درکارہے؟حافظ عبدالخالق جےپور ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میرےنزدیک راجح بلکہ حق وصواب یہ ہے کہ مابین السجدتین جلسہ میں دونوں ہاتھوں کوفخذین پرپھلا کربغیر قبض اصابع کےرکھنا چاہیے۔مولوی عبدالوہاب صاحب مرحوم صدری وغیرہ جس حدیث سےاستدلال کرتےہیں ۔ میرےنزدیک اس کےقابل احتجاج ہونے میں تامل ہے۔ نماز میں اصل ارسال اوربسط ید ہے كما فى خارج الصلاة ۔ اس اصل کےخلاف کےلیے یعنی وضع وأخذ فى حالة القيام ، اور قبض اصابع وعقد فى حالة القعود والجلوس کے لیے دلیل صحیح قوی کی ضرورت ہے۔اوریہ صورت مسؤلہ میں مفقود ومعدوم ہے۔ بہرحال قائلین قبض اصابع وعقد کی دلیل یہ حدیث:’’حدثنا عبدالله – يعنى : ابن احمدبن حنبل– حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ كَبَّرَ، يَعْنِي اسْتَفْتَحَ الصَّلَاةَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ كَبَّرَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ رَكَعَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَسَجَدَ فَوَضَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ أُذُنَيْهِ، ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ ذِرَاعَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، ثُمَّ أَشَارَ بِسَبَّابَتِهِ، وَوَضَعَ [ص:151] الْإِبْهَامَ عَلَى الْوُسْطَى، وَقَبَضَ سَائِرَ أَصَابِعِهِ، ثُمَّ سَجَدَ، فَكَانَتْ يَدَاهُ حِذَاءَ أُذُنَيْهِ،، (مسنداحمد4/317 ) .
یہ حدیث قائلین قبض فیما بین السجدتین کےلیے دلیل صریح ہےاورصرف اسی ایک حدیث پران کا اعتماد ہے، لیکن یہ حدیث دووجہوں سےناقابل استنادواحتجاج ہے :
(1) اس حدیث کادارومدار صرف عاصم ین کلیب ہیں اوروہ اس ذکرزیادۃ میں متفرد ہیں اور ان کی روایت بخالت تفرد قابل احتجاج نہیں ہوتی۔ حافظ مقدمہ فتح الباری ،، ( ص : 457 ) میں لکھتے ہیں : قال ابن المدينى : لايحتج بما تفرد به ،، وكذا ذكره الذهبى فى’’ ميزان الاعتدال ،، ( 3/356 ) ،وقال ابن عبدالبر فى ’’ التمهيد ،، : ’’ هو ليس ممن يحتج إذا انفرد به ،، پس اس وجہ سے یہ روایت یعنی : خاص یہ زیادت جس کا مدار عاصم بن کلیب ہیں قابل اعتبار ولائق احتجاج نہیں ۔
(2) اس حدیث کےمتن میں اضطراب واختلاف ہےجوحدیث کوصحت کےصحت کےدرجہ سےگرا دیتا ہےتفصیل پڑھیے ۔مسند احمد میں عاصم بن کلیب کےچارشارگرد ہیں ۔ جوان کی حدیث میں قبض واشارہ کوفی الجملہ ذکر کرتےہیں۔سفیان ، عبدالواحد ، زائدہ ، شعبہ ، شعبہ اپنی روایت میں تحلیق وعقد واشارہ کوجلسہ تشہد کےساتھ مقید کرتےہیں جوصاف سفیان کی روایت کےمخالف ہے۔الالفاظ یہ ہیں :’’ وخر فى ركوعه وخر فى سجوده ، فلما قعد يتشهدوضع فخذه اليمنى على اليسرى ، ووضع يده اليمنى ، وأشاربإصبعه السبابةوحلق بالوسطى،،(مسنداحمد 4/319)عبدالواحد اورزائدہ مطلق بیان کرتےہیں یعنی : نہ جلسہ مابین السجدتین کےساتھ مقید کرتےہیں نہ جلسہ تشہد کےساتھ ، لیکن صحاح ستہ میں عام صحابہ کی حدیثیں اورخود وائل کی حدیث مروی ازشعبۃ قرینہ ہیں اس بات کا کہ عبدالواحد اورزائدہ کی حدیثوں میں جلسہ تشہد کی کیفیت مذکو رہ ہےنہ جلسہ مابین السجدتین کی ۔
عبدالواحد کےالفاظ یہ ہیں :’’ فَلَمَّا سَجَدَ وَضَعَ يَدَه مِنْ وَجْهِهِ، بِذَالِكَ الْمَوْضِعِ فَلَمَّا قَعَدَ افْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ حَدَّ مِرْفَقِهِ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَعَقَدَ ثَلَاثِينَ وَحَلَّقَ وَاحِدَةً، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ،، (مسنداحمد 4/316) اور زائدہ کےالفاظ حسب ذیل ہیں : ’’ ثُمَّ سَجَدَ، فَجَعَلَ كَفَّيْهِ بِحِذَاءِ أُذُنَيْهِ، ثُمَّ قَعَدَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، فَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ وَرُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِهِ الْأَيْمَنِ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، ثُمَّ قَبَضَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ فَحَلَّقَ حَلْقَةً، ثُمَّ رَفَعَ إِصْبَعَهُ، فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بِهَا "، ثُمَّ جِئْتُ بَعْدَ ذَلِكَ فِي زَمَانٍ فِيهِ بَرْدٌ(مسنداحمد 4/318 ) الحديث .
رہ گئی سفیان کی حدیث سوواضع ہوکہ اس میں بھی اختلاف ہے۔ سفیان کےدوشاگرد ہیں : (1) عبدالرزاق (2) عبداللہ بن الولید۔
یہ دونوں شاگرد سفیان سےاس زیادۃ کوذکر کرتےہیں متفق نہیں ہیں ۔یعنی :صرف عبدالر زاق ذکر کرتےہیں ۔ اورعبداللہ بن الولید اس عقد واشارہ کوکسی خاص جلسہ کےساتھ مقیدنہیں کرتےچنانچہ ان کےالفاظ یہ ہیں :
’’ فلما جلس حلق بالوسطى والإبهام وأشاربالسبابة ، ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى ، وضع يده اليسرى على فخذه اليسرى ،، ( السنن الكبرى 2/ 133 ) .
معلوم ہوا کہ عبداللہ بن الولید عن سفیان کےالفاظ بھی بشربن المفضل وعبدالواحد وزائد وغیرہم عن عاصم بن کلیب کےالفاظ کےکی طرح مجمل ہیں ، پس ایسی حالت میں عبدالرزاق عن سفیان عاصم بن کلیب کی یہ روایت کیوں کر قابل احتجاج ہوسکتی ہے؟
ونیز سنن کبریٰ ، بیہقی کی روایات ’’ يوحد بها ربه ، يشيربها إلى التوحيد ،،( موطا امام مالك برواية محمد بن الحسن الشيبانى ص: 67 ) کی روشنی میں سبابہ کےذریعہ اشارہ کرنے سےمقصود توحید الہی کی طرف اشارہ کرنامعلو م ہوتاہے، اسی بنا پراکثر فقہاء یہ کہتےہیں کہ تشہد میں جب لاالہ الا اللہ پرپہنچے توسبابہ سے اشارہ کرےتاکہ قول وفعل دونوں سےتوحید کااقرار ہوجائے ۔
اس صورت حال کا مقتضیٰ یہ ہےکہ اشارہ کوتشہد والے قعدہ کےساتھ مخصوص مانا جائے ۔ هذا ماعندى والله اعلم – (محدث دهلى ج:2ش:2جمادى الآخر1366ھ؍مئی 1947ء )
٭ تورک آں حضرت ﷺ سےفعلا صرف دوقعد ہ والی نماز میں اوروہ بھی آخری قعدہ میں ثابت ہے۔ دورکعت والی نماز کےقعدہ میں تورک کرنے کےبارےمیں کوئی صریح روایت نظر سے نہیں گزری پس دورکعت والی نماز کےقعدہ میں اختیار ہے کہ تورک کیا جائے یا افتراش پرعمل کیا جائے دونوں جائز ہے ۔واللہ اعلم۔املاہ : عبیداللہ الرحمانی المبارکفوری(محدث بنارس ۔شیخ الحدیث نمبر۔فروری 1997ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب