السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک مسجد کےجملہ مصلی اہل حدیث ہیں اور اہل حدیث کےطریقہ پرنماز باجماعت اداکرتےہیں۔ پوری جماعت ربنالک الحمد اورآمین جہر ( اونچی آواز ) سےکہتی ہے ، لیکن جماعت میں شامل نابالغ لڑکے ، مسئلہ کی اہمیت کو نہ جان کر رواجاً ، بلکہ شرارتاً اپنے ہم جنسوں میں سے ایک آواز پراپنی آواز کواونچی کرنےکےلیے آمین اورربنا لک الحمد بہت بلند آواز سےکہتے ہیں ۔ ان کی بے حد بلند آواز سےجماعت میں تفریق ہوگئی ہےپس بلند آواز ی کی حد اورمعیار بیان فرمائیں تاکہ جماعت میں تفریق نہ ہو ۔ قاضی محمد خاں منڈلہ سی پی
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز باجماعت میں امام آمین اتنی اونچی آواز سےکہہ سکتا ہےکہ اس کی آواز پہلی صف سے متجاوز ہوکر عورتوں کی صف (اگر عورتیں جماعت میں شریک ہوں ) تک پہنچ جائے ۔ ’’ عن أم الحصين أنها صلت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما قال :ولا الضالين ، قال : آمين ، فسمعته وهى فى صف النساء ،، (أخرجه الطبرانى فى الكبير(25/158 ) وابن راهويه فى مسنده ، وسكت عليه الحافظ فى الدراية (1/139 ) والزيلعى فى نصب الراية ، (1/ 381 ) والعينى فى شرح البخارى ( 6/53 ) اور مقتدى بالغ ہوں یانابالغ ، اس قدر بلند آواز سےکہیں کہ ان کی اورامام کی مشترکہ مجموعی آواز سےمسجد میں ارتجاج ( گونچ )پیدا ہوجائے ۔’’ عن أبى هريرة قال : ترك الناس آمين، وكان رسو ل الله صلى الله عليه وسلم قال : إذا قال غيرالمغضوب عليهم ولاالضالين ، قال : آمين ، حتى يسمع أهل الصف الأول فيرتج بها المسجد ،، (وابن ماجه(كتاب اقامة الصلاة باب الجهر بأمين (853) 1/278) بسندضعيف ، لكن ضعفه انجز بتعدد طرقه ، وقد اعترف النيموى بأنه حسن لغير ه ، ( |آثار السنن 1/94)’’ عن عطاء قال : كنت أسمع الأئمة ابن الزبير ومن بعدهم يقول آمين ، ويقول من خلفه آمين حتى أن للمسجد للجة ،، (الشافعى ) ( عمدة القارى 6/ 48) اورربنا لك الحمد الخ مقتدى اتنی بلند آواز سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کی آواز امام تک پہنچ جائے كما يدل عليه حديث رفاعة بن رافع الزرقى الذى أخرجه البخارى 1/191 وغيره –اور بچوں کوسمجھانا دینا چاہیے کہ وہ آمین اور ربنا لک الحمد درمیانی آواز سے کہیں اورگلا پھاڑ کرنہ کہیں ۔ایسی معمولی بات پرجماعت میں تفریق ہوجانا جماعت کےادبار وانجطاط کی عبرت ناک دلیل ہے ۔ (محدث دہلی )
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب