سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(158) کیا اہل حدیث کوکسی مسجد میں نماز پڑھنے سےروکنا جائز ہے ؟

  • 17180
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1179

سوال

(158) کیا اہل حدیث کوکسی مسجد میں نماز پڑھنے سےروکنا جائز ہے ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے یہاں شہر رتلام میں ایک مقدمہ  مسجد بابت ادا کرنے نمازمیں  بلند آواز سےآمین کہہ کر(یعنی آمین بالجہر) مابین مدعیان اہل حدیثان ومدعاعلیہم احناف ایک عرصہ سےچل رہاہے، چنانچہ اہل حدیثوں نےاپنے دعویٰ کوتائید میں آیت قرآنی :’’ومن اظلم ممن منع مساجد اللہ ،، الخ پیش کی ، اورحاکم عدالت نےاپنے فیصلہ میں  یہ آیت تنقیح میں داخل فرمائی ۔اس کےجواب میں احناف  نےایک فتویٰ  بریلی سےمنگوایا ہے، جوعدالت میں داخل کیا گیا ہے۔اس لیے عرض ہےکہ اس فتویٰ کی نقل  بجنسہ حسب ذیل ہے اور دریافت امریہ ہےکہ اس میں جوآیت واحادیث کےٹکڑے کوداخل کیاگیا ہےان کاصحیح مطلب کیاہے ؟۔ اور استدلال کہاں تک غلط؟اورکہاں تک صحیح ہے؟ حوالہ جات کااستعمال کس موقع کےلیے ہے؟ (راقم الہی بخش )

نقل استفتاء جماعت بریلویہ مع جواب علماء بریلوی :

یہاں پرقلعی گروں  کی ایک مسجد ہےتھوے دنوں سےچندقلعی گروہابی یعی :  غیرمقلد ہوگئے ہیں۔ چوں کہ نماز میں بہت اونچی آواز سےآمین بولا کرتےہیں جس سے حنفی بہت گھبرا جاتےہیں ۔الغرض  ان دونوں کی  ہمیشہ لڑائی بھڑائی رہی ، یہاں تک کہ نوبت  کچہری تک پہونچی ۔عدالت نےاس فساد وجھگڑے کی وجہ سے غیرمقلدوں کی حنفیوں کی مسجد میں جانے کی ممانعت کی ، چنانچہ اہل حدیثوں نےاپنے لیے ایک دوسرے مسجد  بنوالی اوراس وقت سےاب تک اس مسجد میں نماز پڑھتےرہے۔اب چندروز سےپھر ان میں سےچند شریراہل حدیثوں نےاپنی  مسجد مقررہ کوچھوڑ کر حنفیوں کی مسجد میں آنا شروع کردیا اور زور سےچلا کرآمین کی وجہ سے نماز میں خلل ڈالنے لگے ، اس بناپر کورٹ کچہری میں دوبارہ مقدمہ چلنے لگا ہے۔اب ان کی طرف سے عرضی دعویٰ میں یہ بات پیش کی ہےکہ مسجد میں ہرایک کوآنے کی اجازت ہےاور اپنے دعویٰ پریہ آیت پیش کی ’’ ومن أظلم ممن منع مساجد الله أن يذكرفيها اسمه ،، الخ (البقره : 114 ) . اورکورت یعنی : عدالت کویہ بات اس آیت سےسمجھادی ہےکہ مسجد میں ہرعبادت کرنے کاحق حاصل ہے۔ سوا ل یہ ہےکہ  جیسا ان لوگوں نے(یعنی اہلحدیثوں نے ) عدالت  میں آیت مذکورہ پیش کی ہے ایسا ہی ہم احناف کےلیے قرآن شریف  سے ان کےاخراج کےلیےکوئی آیت موجودہےیانہیں ؟چوں کہ  ہم نے عدالت میں یہ بات پیش کی ہےکہ فساد وآمین بالجہر کی وجہ سے ہماری نمازخراب  ہوجاتی ہے، اس لیے ہم نہ آنے دیں گے اورکورٹ مذکورہ پہلے بھی ان کےحق میں یہ حکم دیا تھا کہ فساد کی وجہ سے علیحدہ نماز پڑھا کرو۔ اب سوال یہ ہےکہ اپنے آنے کےبارے میں غیرمقلدوں نےجیسے یہ آیت پیش کی ہے ہمارے لیے ان اخراج کےلیےکوئی  حکم ہے یانہیں  ؟

سائل: سلیمان ابن حاجی وزیر محمد متولی مانک مسجد ، مقام قلعی گروں کی سڑک مانک چوک  مسجد ، ریاست رتلام  ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل حدیث کےسواجتنے قرقے ہیں سب گمراہ ہیں ، بددین ہیں جن کی بددینی میں کوئی شبہ نہیں ان بددینوں کی نسبت اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہےکہ ان کےپاس نہ بیٹھو ۔ قال الله تعالي :﴿وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٦٨﴾...الأنعام’’ تفسيرات احمدیہ ،، ص : حضرت ملا جیون قدس سرہ استاد حضرت اورنگ زیب عالمگیر ﷫  تحریر فرماتے ہیں :’’  و ان القوم الظالمين يعم المبتدع والفاسق وولكافر، والقعود مع كلهم ممتنع  ،،  یعنی : قوم ظالمین  جن کےپاس اللہ نےبیٹھنا حرام  فرمایا ہے مبتدع ، فاسق وکافر کاشامل ہےان کے پاس بیٹھنا حرام ہےاس طرح ان کی  نسبت احادیث میں آیاہے۔’’ إياكم وإياهم ، لايضلونكم ولا يفتنونكم ،،(مسلم : 1/12 ) یعنی : اپنے کوان سےدوررکھو اوران کواپنے سےدور کروایسا نہ ہوکہ وہ تمہیں گمراہ کردیں اورفتنہ میں ڈال دیں ۔ اسی طرح اوراحادیث میں ان سےقطعی دوررہنے کاحکم  آیا ہے۔ان ابن حبان ﷜ کی حدیث میں آیا ہےکہ حضور اقدص ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :’’  لاتضلوا معھم ،، ان بدودینوں کےساتھ نماز نہ پڑھو۔لہذا قرآن شریف وحدیث مبارک سےثابت ہواکہ ان کواپنے سےدوررکھا جائے اوران کےساتھ نماز نہ  پڑھی جائے ان پاس نہ بیٹھا جائے ۔ پھر ان لوگون کایہ دعویٰ کہ ہم کوسینوں کےساتھ نماز پڑھنے کاحق  حاصل ہےمحض غلط ہے۔واللہ اعلم بلکہ ان کو مسجد میں نہ آنے دیاجائے  جیسا کہ اوپر ثابت کیاگیا ۔ نیز درمختار جلد اول دارالکتب العربیہ الکبری ص 489 میں ہے: ’’ويمنع منه اى من المسجد كل موذ ولوبلسانه ،، والله اعلم .

کتبہ عبیداالنبی نواب مرزا عفی عنہ مفتی دار العلوم منظراسلام ،بریلی

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 245

محدث فتویٰ

تبصرے