سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(544)تبرک اور ثواب حاصل کرنے کے انوکھے طریقے

  • 17144
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 887

سوال

(544)تبرک اور ثواب حاصل کرنے کے انوکھے طریقے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عرفات میں جبل رحمت پر تین مسجد یں ہیں۔ جن کی محرابیں قریب قریب ہیں اور ان پر چھت نہیں، حاجی اہتمام سے جاکر ان کی محرابوں اور دیواروں پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور بعض محرابوں میں پیسے بھی ڈالتے ہیں اور ہر محراب میں دو رکعت نماز پڑھتے ہیں۔ بسا اوقات نماز کا ممنوع ثقت ہوت ہے۔ پھر بھی نماز پڑھتے رہتے ہیں اور یہاں مردوں عورتوں کا جھمگٹا ہوجاتاہے۔ حاجی یہ سب حرکات ذوالحجہ کی نو تاریخ سے پہلے کرتے ہیں۔۔ جنا ب سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ میں شرعی حکم کی وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔          پورے کا پورا میدان عرفات حج کے شعاء رمیں سے ایک ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک خاص عبادات ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ ہے نو ذوالحجہ کو یہاں وقوف کرنا ۔ یہاں لوگوں کی رہائش نہیں ہے اس لیے ا س میدان میں یا س کے پہاڑ پر ۔ جو لوگوں میں جبل رحمت کے نام سے مشہور ہے۔ روز مرہ نمازیں ادا کرنے کے لیے مسجد یا مساجد تعمیر کرنے کی ضرورت نہیں۔یہاں مسجد نمرہ موجود ہے جہاں حجتہ الودع کے موقع پر نبیﷺ نے ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کی تھیں۔ یہ اس لیے تعمیر کی گئی ہے کہ جو حاجی عرفہ کے دن ظہر او رعصر کی نماز یہاں پڑھ سکے ، پڑھ لے۔ سلف صالحین نے جبل رحمت کے نام سے معروف پہاڑ پر مسجدیں نہیں بنائی تھیں ۔ لہٰذا یہاں مسجد یا مسجدیں تعمیر کرنا بدعت ہے اور ان مسجدوں میں دو رکعت یا زیادہ نماز ادا کرنا ایک بدعتے ہے۔ پھر ان دو یا زیادہ رکعتوں کاممنوع اوقات میں ادا کرنا ایک تیسری بدعت ہے۔

۲۔        لوگوں کا ان مسجدوں میں جاکر ان کی دیواروں اور محرابوں کو چھونا، ان می پیسے ڈالنا اور ان سے برکت حاصل کرنا بدعت ہے بلکہ ایک قسم کاشرک ہے جودور جاہلیت کے کفار کے اس عمل سے ملتا جلتا ہے جو وہ اپنے بتوں کے ساتھ کرتے تھے۔ لہٰذا ذمہ دار کا فرض ہے کہ ایک شرکا سد باب کرنے اور فتنہ کی راہ روکنے کے لئے ان مساجد کو ختم کر دیں۔ تاکہ وہ سبب ختم ہوجائے جس کی وجہ سے پہاڑ پرچڑھتے اور اس سے برکت حاصل کرتے اور س پر نماز پڑھتے ہیں ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے