السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1۔ نماز تراویح کے طریقے کے بارے میں ہمارے ہاں سخت اختلاف پایا جاتاہے بعض لوگ نماز تروایح شروع کرتے ہیں تو کہتے ہیں:
صَلَاة الْقِیَامِ، اَثَابَکُمُ الله ’’ قیام کی نماز ، اللہ تمہیں ثواب دے۔‘‘
پھردو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے ہیں توکہتے ہیں :
اَلَّلهمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ ’’ اے ! ہمارے محمدﷺ پر درود اور اسلام نازل فرما۔‘‘
یہ الفاظ امام بھی کہتا ہے او رمقتدی بھی مل کر کہتے ہیں۔ مزید دو رکعتیں پڑھنے کے بعد امام مقتدی سبھی بلند آواز سے سورة اخلاص اور معوذتین پڑھتے ہیں اور جب نماز ترایح سے فارغ ہوتے ہیں تو تین باریہ سورتیں پڑھی جاتی ہیں ۔ جب ہم کہتے ہیں کہ یہ طریقہ حدیث میں نہیں آیا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اچھا کام ہے اور بدعت حسنہ ہے ۔ کیا اسلام میں بدعت حسنہ ہے؟ اس کے متعلق آپ کی رائے ہے؟ اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہی؟ ہم یہ سنت ہماز کس طرح ادا کریں؟آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
2۔ جمعہ کے دن نماز ظہر سے پہلے لائوڈ سپیکر میں قرآن کی تلاوت کا کیا حکم ہے’؟ اگر کوی کہے کہ یہ حدیث میں مذکورنہیں تو کہتے ہیں؟ تم قرآن کی تلاوت روکنا چاہتے ہو؟اور فجر کی اذان سے کچھ پہلے لاؤڈ سپیکر میں دعائیں مانگنے کے بارے میں اپ کا کیا خیال ہے؟ اگر کہا جائے کہ اس عمل کوئی دلیل نہیں تو کہا جاتا ہے یہ اچھا کام ہے اس طرح ہم لوگوں کو فجر کی نماز کے لیے جگاتے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔لوگوں کا صَلَاة الْقِیَامِ اَثَابَکُمُ اللہ کہنا اور امام کا پھر مقتدیوں کا بلند آواز سے’’ اَلَّلهم صَلِّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ کہنا، دو رکعتوں کے بعد آواز سے سورۃ الاخلاص او رمعوذتین پڑھنا سب خود ساختہ بدعتیں ہیں اور نبیﷺ نے فرمایا:
((مَنْ أَحّدَثَ فِی أَمْرِنَا هذا مَالَیْسَ مِنْه فَهوَ رَدٌّ))
’’ جس نے ہمارے اس دین میں نئی بات نکالی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘
اور نبی ﷺ خطبہ جمعہ میں فرمایا کرتے تھے۔
((أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیثِ کِتَابُ الله وَخَیْرُ االهدى هدی مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُها وَکُلُّ بِدْعَة ضَلَالَة ))
’’ اَمَّا بَعّدُ: سب سے اچھی بات اللہ کی کتاب ہے اورسے اچھا طریقہ محمدﷺ کا طریقہ ہے اور سب سے برے کام وہ ہیں جو نئے ایجاد کیے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
یہ حدیث امام مسلم نے اپنی کتاب’’صحیح‘‘ میـں روایت کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بدعتیں سب کی سب گمراہی ہیں جیسے کہ جناب مصطفیﷺ نے فرمایا: اور اسلام میں کوئی ’’ بدعت حسنہ‘‘ نہیں ہے۔‘‘
2۔ ہماری معلومات کے مطابق اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایسے ہوا ہو۔ نہ ہمیں کسی صحابی کے ایسے عمل کا پتہ ہے۔ اسی طرح فجر کی اذان سے پہلے لاؤڈ سپیکر پر دعائیں کرنا بھی ثابت نہیں۔ اس لیے یہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور نبیﷺ کا یہ فرمان صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ:
((مَنْ أَحّدَثَ فِی أَمْرِنَا هذا مَالَیْسَ مِنْه فَهوَ رَدٌّ))
’’ جس نے ہمارے اس دین میں نئی بات نکالی (در حقیقت) جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب