السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1۔ ہم وضع باقور ضلع ابوتیج صوبہ اسیوط (مصر) میں رہتے ہیں۔ ہم اس وقت کچھ بدعات (خلاف شرع امور) کی وجہ سے کافی پریشان ہیں ۔ جناب سے گزارش ہے کہ بدعت کے متعلق شافی جواب عنائت فرمائیں تاکہ ہم لاعلمی کی وجہ سے غلطیاں نہ کریں بلکہ سمجھ کر اسلام کے اصولوں پر عمل کریں اور بدعات سے باز رہیں اور دوسروں کو بھی بدعت سے منع کریں علاوہ ازیں یہ بھی ارشاد فرمائیںکہ اس موضوع پر رہنمائی کرنے والی کتابیں کون سی ہیں ؟ اللہ تعالیٰ خیر اور ہدایت کی طرف ہماری اور آپ کی رہنمائی کرے۔
۲۔ ہم نوجوان دین کی طرف راغب ہیں حالانکہ ہمیں والدین کی طر ف سے سخت رد عمل کا سامنا ہے۔ کیونکہ ان پر مادیت غالب ہے اوروہ دین کے معاملہ میں بے پروا ہیں۔ آپ یہ فرمائیں کہ کون سی اچھی کتابیں بدعات سے خالی ہیں جن کا ہم مطالعہ کریں نیز صراط مستقیم کی طرف لے جانے والے اسباب کون کون سے ہیں؟ ہم چونکہ دین کی طرف راغب ہیں اور ان کے بدعتوں والے مذہیب کی تردید کرتے ہیں، اس لیے وہ ہمیں جیب خرچ بھی نہیں دیے اس لیے جناب سے گزارش ہے کہ اچھی کتابوں کی ایک فہرست بنادیں تاکہ ان میں سے جتنی ممکن ہوں ہم خرید سکیں اور علم وبصیرت کی روشنی میں اللہ کی عبادت کرسکیں۔کیا یہ صحیح ہے کہ کچھ حدیثیں ضعیف اور موضوع بھی ہوتی ہیں؟ ہم انہیں کیسے پہچان سکتے ہیں ؟ جب کہ ان میں سے سی ضعیف احادیث ائمہ وخطباء کی زبان سے سنتے ہیں ۔
۳۔ ہمارے ہاں جو بہت سے صوفیانہ سلسلے پائے جاتے ہیں مثلا شازلیہ، سعدیہ ، برہانیہ وغیرہ ان کی کیا حقیقت ہے؟ ہمان کی تردید کس طرح کرسکتے ہیں ؟ اس موضوع پر تسلی بخش کتابیں کون کون سی ہیں ؟ کیا وہ واقعی حق پر ہیں جس طرح کہ ان کا دعویٰ ہے؟
۴۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ائمہ مساجد مختلف مذاہب پر ہیں۔ جب بات چیت شروع ہوتی ہے تو اس کا انجام عموما آپس میں لڑائی جھگڑے پر ہوتاہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض نمازی اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ ہمیں اس مسئلہ میں تسلی بخش جو اب عنایت فرمائیں، کیا ہم ایک مذہب کی پیروی کریں؟ ہم مذاہب کے درمیان کس طرح موافقت پیدا کرسکتے ہیں تاکہ حالات صحیح رہیں ؟
۵۔ بعض لوگ کتاب اللہ کا ادب ملوظ خاطر نہ رکھتے ہوے ایات مقدسہ کی تفسیر اپنی خواہشات کے مطابق کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو گمراہ کریں ۔ اس کی ایک مثال یہ آیت مبارکہ ہے ،سورئہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ ... ١٩١﴾...آل عمران
’’ جولوگ اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے ، بیٹھے ہوئے اور پہلوئوں پر لیٹے ہوئے۔‘‘
اس کا وہ لوگ یہ مفہوم لیتے ہیں کہ ذکر کرتے وقت ناچتے ہیں ا ور ایسے الفاظ گنگناتے ہیں جو سننے والوں کی سمجھ میںنہیں آتے اور دائیں بائیں جھومتے ہوئے اللہ حتی کہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اور بہت کچھ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی مسائل ہیں مثلا وہ خاندانی منصوبہ بندی کے قائل ہیں، عورتوں کے لیے گان اور نعتیں پڑھنا جائز سمجھتے ہیں اور سازوں باجوں کے ساتھ نعتیں پڑھتے ہیں ۔ آپ سے گزاسرش ہے کہ ہمیں دین کے بارے میں معلومات دیں تاکہ ہم اسے اچھی طرہ سمجھ سکیں اور اہل بدعت کی تردید کر سکیں ۔نیز اس بارے میں کچھ مفید کتابیں بیان فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
۔ آپ نے ان بدعتوں کی وضاحت نہیں فرمائی جن کے متعلق آپ جواب حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم تفصیل سے جواب دیتے ۔ لیکن ہم آپ کو ایک اہم اصول بتاتے ہیں کہ عبادات میں اصل منع ہے حتی کہ کوئی شرعی دلیل اجائے ۔ لہٰذا کسی عبادت کو شرعی قرار دینا یا اس کی تعداد اورکیفیت کے لحاظ سے شرعی قرار دینا اسی وقت ممکن ہے جب کوئی شرعی دلیل موجود ہو۔ جو کام اللہ تعالیٰ نے دین میں مشروع نہیں کیا، اسے ایجاد کرکے عملی جامہ پہنانا درست نہیں۔ ارشادنبوی ہے:
((مَنْ أَحّدَثَ فِی أَمْرِنَا هذا مَالَیْسَ مِنْه فَهوَ رَدٌّ))
’’ جس نے ہمارے اس کام (دین) میں وہ چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تووہ مردود (ناناقابل) ہے۔‘‘
۲۔ آپ قرآن مجید سیکھیں اسے کثرت سے پڑھیں ،اس پر غور وفکر کریں، اس پر عمل کریں اور اس کی طرف بلائیں۔ حدیث شریف میں سے بھی حسب ضرورت سیکھیں ، یعنی صحیح بخاری ، مسلم اور حدیث کی دوسری کتابیں پڑھیں اور جس مقام پر اشکال محسوس ہو علمائے کرام سے دریافت کریں۔
۳۔ تصوف کے مختلف سلسلے شاذلیہ ، احمدیہ ، سعدیہ، برہانیہ‘ وغیرہ سب گمراہی کے راستے ہی ، ایک مسلمان کو ان میں سے کسی کو اختیار نہیں کرنا چاہے ۔ البتہ اس کا فرض ہے کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء رضی اللہ عنہم کا راستہ اختیار کرے ، جنہوں نے سنت کا راستہ اپنایا اسی طرح ان کے بعد والے عاملین سنت کا طریقہ اختیار کرے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے:
(( لَا تَزَالُ طَآئِفَة مِّنْ اُمَّتِی ظَاهرینَ عَلَی الْحَقِّ لَا یَضُرُّهم مَنْ خَذَلَهم حَتّٰی یَاْتِیَ اَمْرُ الله ))
’’ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کی مدد سے فیض یاب رہے گا، ان کو چھوڑ جانے والے یا ان کی ـمخالفت کرنے والے ان کا کچھ نقصان نہیں کرسکیں گے۔حتی کہ اللہ کا حکم آجائے۔‘‘
نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((خير النَّاسِ قَرْنِی ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونُهمْ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَهمْ))
’’ سب سے بہترین لوگ میرے زمانہ کے ہیں (یعنی صحابہ) پھر وہ جو ان سے ملیں گے (یعنی تابعین) ، پھر وہ جو ان سے متصل ہوںگے (یعنی تبع تابعین)‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((افْتَرَقَتِ الْیَهودُ عَلَی إِحْدَی أَوْ ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ فِرْقَة وَتَفَرَّقَتِ النَّصَارَی عَلَی إِحْدَی أَوْ ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ فِرْقَة وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلَی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ فِرْقَة کُلُّھَا فِی النَّارِ إِلاَّ وَاحِدَة))
’’ یہودی اکہتر فرقوں میں بٹ گئے ، عیسائی بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور یہ امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی ایک کے سوا باقی سب فرقے جہنم میںجائیں گے۔‘‘
حاضرین نے کہا: ’ وہ کون لوگ ہیں یارسول اللہ !؟ ارشاد فرمایا:
((مَنْ کَانَ عَلٰی مِثْلِ مَاأَنَا عَلَیْه الْیَوْمَ وَأَصْحَابِی))
’’ جو ایسے طریقے پر چلا جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں۔ـ‘‘
ان کی تردید کے لیے آپ کو ان کے تفصیلی عقائد بدعتوں اور شبہات کا علم ہونا چاہے۔ ان کو قرآن و سنت کی روشنی میں پر کھیں۔اس سلسلہ میں اس موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں سے مدد مل سکتی ہے۔ مثلا ’’ السنن والمبتدعات‘‘ ’’ مصرع التصوف‘‘ از عبدالرحمن الوکیل، ’’ الاعتصام‘‘ از امام شاطبی‘ الابداع والمضار‘‘ ازشیخ علی محفوظ ، ’’ص اغاثه اللهفان من مکائد الشیطان‘‘ از علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اور اس قسم کی دوسری کتابیں۔
۴۔ مذ اہب اربعہ کے ائمہ اکرام میں فقہ کے فروعی مسائل میں اختلاف کے مختلف سے اسباب ہیں ، مثلا ایک حدیث ایک امام کی نظر میں صحیح ہے، دوسرے کے ہان وہ صحیح نہیں، یا ایک امام کو ایک حدیث پہنچی ہے دوسرے کو نہیں پہنچی ، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اسباب ہیں جن کو وجہ سے آراء میں اختلاف پیدا ہوا۔ مسلمان کو ہر مجہتد کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہے۔ ہر عالم مسائل ذکر کرتے ہوئے حق ہی کا متلاشی تھا، اگر وہ صحیح نتیجہ تک پہنچ گیا تواسے دو چیزوں کا ثواب اور اگر اس سے اجہتاد میں غلطی ہوئی ۔توبھی اسے اجتہاد کا ثواب ملے گا اور اس کی غلطی معاف ہے۔
ائمہ اربعہ کی تقلیدکے بارے میں یہ بات ہے کہ جو شخص دلیل کی روشنی میں صحیح بات اخذ کرسکتا ہے، اس پر واجب ہے کہ دلیل پر عمل کرے۔ اگر اس میں یہ اہلیت نہ ہو تو حتی الامکان اس عالم کی بات مانے جواس کے خیال میں سب سے زیادہ قبل اعتماد ہے۔ فروعی اختلاف کی وجہ سے مختلف آراء رکھنے والوں کوایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے پرہیز نہیں کرنا چاہے ، بلکہ ان کے لیے ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا ضروری ہے صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام رحمہ اللہ کا آپس میں فروعی مسائل میں اختلاف ہو ا کرتاتھا۔ اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے رہتے تھے۔
۵۔ قرآن مجید کی تفسیر کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی تشریح خود قرآن ، حدیث رسولﷺ اور اقوال صحابہ وتابعین کی روشنی میں کی جائے اور اس سلسلے میں عربی زبان کے اسلوب بیان اور مقاصد شریعت کو پیش نظر رکھا جائے۔۔ آیت مبارکہ:
﴿الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ ... ١٩١﴾...آل عمران
’’ جو لوگ کھڑے ، بیٹھے، لیٹے اللہ کو یادکر تے رہتے ہیں۔‘‘
کی جو تفسیر آپ بیان کی ہے کہ بعض لوگ اس رقص ، غیر شرعی اذکار،سمجھ میں نہ آنے والے (الفاظ وکلمات) گنگنانا، اللہ حی کہتے ہوئے دائیں بائیں جھومنا اور اس قسم کی دوسری چیزیں مراد لیتے ہیں ، یہ تفسیر بالکل باطل ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔
آپ مذکورہ بالاآیت اور اس کقسم کی دوسری آیات کی تفسیر کے لیے تفسیر ابن کثیر ، تفسیر ابن بغوی وغیرہ کا مطالعہ کرریں ، تاکہ قابل اعتماد مفسرین کے اقوال سے حق کو سمجھ سکیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب