سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(502)بوہروں کا یہ دعویٰ کرنا کہ وقف کی تمام املاک کلیتاً اس کی ملکیت‘ اس سے تمام صدقات کے متعلق کوئی محاسبہ نہیں کیا جاسکتا۔

  • 17102
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 603

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وقف کی تمام املاک کلیتاً اس کی ملکیت‘ اس سے تمام صدقات کے متعلق کوئی محاسبہ نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح ان کے سابقہ پیر سیدنا طاہر سیف الدین (آنجہانی) نے بمبئی ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ میں بیان دیا تھا کہ اسے اپنے مریدوں پر کلی اختیار حاصل ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال میں بوہرہ فرقہ کے بڑے پیشوا کے جو دعوے ذکر کئے گئے ہیں کہ وہ وقف املاک کاکلی مالک ہے اور تمام صدقات کے متعلق کسی محاسبہ سے بالاتر ہے اور وہ زمین میں اللہ ہے۔ یہ سب جھوٹے دعوے ہیں‘ خواہ اس قسم کے دعوے یہ شخص کرے یا کوئی اور شخص۔ پہلا دعویٰ اس لئے غلط ہے کہ وقف چیز کسی کی ملکیت نہیں بن سکتی۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے فائدہ اٹھانے کا حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا۔ (بلکہ) وہ آمدنی ان مصارف میں خرچ نہیں کی جائیگی۔ جو وقف کرتے ہوئے متعین کئے گئے ہیں‘ نہ کسی اور میں۔ لہٰذا بوہرہ فرقہ کا پیشوا کسی وقف کا مالک نہیں بن سکتا؟ نہ ا س کی آمدنی میں سے کسی چیز کا مالک بن سکتاہے سوائے اس آمدنی کے جو صرف اس کے لئے وقف کی گئی ہو بشرطیکہ وہ اس کا مستحق ہو۔

دوسرا دعویٰ کہ اس کا محاسبہ نہیں ہوسکتا یہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ قرآن وحدیث کی نصوص اور اجماع امت کی روشنی میں ہر شخص کا اس کے تمام اعمال میں محاسبہ کیا جاسکتا ہے۔ خواہ وہ صدقات وغیرہ میں تصرف ہو یا کوئی اور عمل۔

تیسرا دعویٰ (نعوذ باللہ من ذالک) کہ وہ زمین موجود اللہ ہے‘ یہ واضح طور پر کفر ہے۔ جو شخص اس قسم کا دعویٰـ کرے وہ طاغوت ہے جو اپنی الوہیت اور عبادت کی طرف بلاتا ہے۔ اس کا باطل ہونا اور دین اسلام کے خلاف ہونا اتنا بدیہی ہے کہ دلائل ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ