السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیااسلام میں مختلف طریق اور سلسلے موجود ہیں‘ مثلاً شاذلیہ‘ خلوتیہ وغیرہ اگر یہ طریقے صحیح ہیں تو اس کی دلیل کیا ہے؟ اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا کیا مطلب ہے؟
﴿وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٥٣﴾...الأنعام
’’اور یہ میرا راستہ ہے بالک سیدھا لہٰذٓ اس کی پیروی کرو اور (دوسرے) راستوں پر نہ چلنا ورنہ وہ تمہیں اس (اللہ) کے راستے سے جدا کردیں گے۔ اس نے تمہیں یہ نصیحت کی ہے تاکہ تم بچو۔‘‘
اور اس آیت کاکیا مطلب ہے:
﴿وَعَلَى اللَّـهِ قَصْدُ السَّبِيلِ وَمِنْهَا جَائِرٌ ۚ وَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٩﴾...النحل
’’اور اللہ تک سیدھی راہ پہنچتی ہے اور بعض را ہیں ٹیڑھی ہیں‘ اگر وہ چاہتا ہے تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔‘‘
اللہ کا راستہ کون سا ہے؟ اور اس سے ہٹانے والی راہیں کون سی ہیں؟ اس حدیث کا کیا مطلب ہے جو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبیﷺنے ایک خط کھینچا اور فرمایا: ’’ھذا سبیل الرشید‘‘ یہ ہدایت کا راستہ ہے۔ پھر دائیں بائی کئی لکیریں کھینچیں اور فرمایا:
(ھٰذَا سُبُلٌ عَلیٰ کُلِّ سَبِیلٍ مِنْھَا شَیْطَانٌ یَدْعُوا إلَیْه)
’’یہ راہیں ہیں‘ ان میں سے ہرراہ پر ایک شیطان ہے جو اپنی طرف بلاتا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مذکورہ بالا طریق یا اس طرح کے دوسرے سلسلے اسلام میں نہیں پائے جاتے۔ اسلام میں وہی کچھ موجود ہے جو سوال میں مذکور آیتوں اور حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے اس کی تائید دیگر احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
(افْتَرَقَتِ الْیَھُودُ عَلی إحْدَی وَسَبْعِینَ فِرْقَة وَاقْتَرَقَتِ النَّصَارَی عَلَی اثْنَتَینِ وَسَبْعِینَ فَرْقَةوَسَتَفْتَرِقُ ھٰذِہِ الاُمَّة عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ فِرْقَة کُلُّھَا فِی النَّارِ إلاَّ وَاحِدَة قِیلَ مَنْ ھِیَ یَا رَسُولَ الله؟ قَالَ: مَنْ کَانَ عَلَی مِثْلِ مَا أَنَا عَلَیْه الْیَوْمَ وَأَصْحَابِى)
’’یہودی اکہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے‘ عیسائی بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی‘ ایک کے سوا وہ بھی سب فرقے جہنم میں جائیں گے عرض کی ’’یارسول اللہa‘‘وہ کون لوگ ہیں؟ ارشاد فرمایا: ’’جو اس طریقے پر ہو جس پر میں اور آپ کے صحابہ ہیں۔‘‘
اور ارشاد ہے:
(لاَ تَزالُ طَائِفَة مِنْ أُمَّتِى عَلَی الْحَقِّ مَنْصُوْرَة لاَ یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ وَلاَ مَنْ خَالَفَھُمْ حَتَّی یَأْتِي أَمْرُ الله وَھُمْ عَلیٰ ذَالِکَ)
’’میری امت میں سے ایک جماعت کی (اللہ کی طرف سے) مدد ہوتی رہے گی‘ ان کی مدد نہ کرنے والا یا ان کی مخالفت کرنے والا ان کو نقصان نہ پہنچاسکے گا۔ حتیٰ کہ اللہ کاحکم آجائے گا اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔‘‘
حق کا راستہ یہی ہے قرآن مجید اور صحیح صریح احادیث نبویہ کی اتباع کی جائے۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی حدیث میں جس سیدھی لکیر کا ذکر ہے‘ اسسے بھی یہی مراد ہے‘ صحابہ کرام اور سلف صالحین اسی راہ پر گامزن رہے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی فرقے یا طرق وغیرہ ہیں وہ ان ’’سبل‘‘ میں شامل ہیں جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے۔
﴿وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ...١٥٣﴾...الأنعام
’’سبل (غلط راہوں) پر نہ چلنا‘ ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے دور ہٹادیں گی۔‘‘
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب