سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(450)صوفياء كا ناچنا وغیرہ ٹھیک ہے؟

  • 17048
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 783

سوال

(450)صوفياء كا ناچنا وغیرہ ٹھیک ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صوفیہ جو ناچتے‘ گاتے اور دائیں بائیں جھومتے ہیں اور اسے ذکر کہتے ہیں۔ کیا یہ واقعی ذکر ہے؟ کیا یہ حلال ہے یا حرام؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے بہترین کلام اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور سب سے بہترین طریقہ محمدﷺ کا طریقہ ہے اور بدترین کام وہ ہیں جو (شریعت میں) نئے نکالے جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لئے دین وشریعت کو مکمل کردیا ہے۔ خواہ اس کا تعلق قولی پہلو سے ہو یا عملی پہلو سے یا عقیدہ کے پہلو سے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا... ٣﴾...المائدة

’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کردی ہے اور اسلام کو بطور دین تمہارے لئے پسند فرمایا ہے۔‘‘

اس کی وضاحت جناب رسول اللہﷺ نے اپنے ارشادات سے بھی فرمائی ہے اور اپنے افعال سے بھی اور نبیa کی موجودگی میں جو کام کیا گیا اور آپﷺ نے اس پر نکیر نہیں فرمائی‘ یہ بھی شرعی مسئلہ کی وضاحت شمار ہوتی ہے۔ نبیa کے یہ تمام ارشادات، افعال اور سکوت صحابہ کرامؓ نے بعد والوں تک پہنچا دئیے۔ لہٰذا دین اسلام اپنے اصول وقواعد کے لحاظ سے بھی کامل ہے اور وضاحت وروایت کے لحاظ سے بھی مکمل ہے۔

ذکر عبادت کی ایک قسم ہے اور عبادت کا دارومدار اللہ تعالیٰ اور اس کے نبیﷺ کی وضاحت وتائید پر ہے۔ اس لئے جو شخص کسی کام کو عبادت سمجھ کر کرتا ہے‘ یا کسی عبادت کے لے (اپنی رائے سے) کسی وقت یا کیفیت کا تعین کرتا ہے‘ اس سے دلیل کامطالبہ کیا جائے گا۔ سوال میں جن کاموں کا ذکر ہے ہمارے علم میں ان کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں جس پر اعتماد کیا جاسکے اور رسول ا للہﷺ کا یہ اردشاد صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ:

(مَنْ أَْحْدَثَ فى أَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْه فَھُوَرَدٌّ)

جس نے ہمارے دین میں وہ کام ایجاد کا جو اس میں سے نہیں‘ تو وہ ناقابل قبول ہے۔‘‘

لہٰذا سوال میں جو کیفیت ذکر کی گئی ہے وہ بھی رد کرنے کے قابل ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے