السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے ایک حدیث سنی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(إنَّ الله یَبْعَثُ عَلیٰ رَأْسِ کُلِّ مَائَة عَامٍ مَنْ یُّصْلِحُ لِھَذِه الأُمَّة أَمْرَ دِینِھَا)
’’اللہ تعالیٰ ہر سوسال کے سرے پر (ایسا شخص) بھیجے گا جو اس امت کے دینی معاملات درست کرے گا‘‘
اس کے متعلق میں کچھ سوالات کرناچاہتا ہوں۔
(۱) اس حدیث کی سند اور صحیح متن کس طرح ہے؟ اور اس کاراوی کون ہے؟
(ب) اگر ممکن ہو تو ان نیک حضرات کا ذکر فرمادیں (کہ وہ کون کون ہیں؟)
(ج) ’’دین کے معاملات درست کرنے‘‘ کا کیا مطلب ہے۔ حالانکہ رسول اللہa ہمیں روشن (واضح) راستہ پر چھوڑ کر گئے ہیں؟
(د) ان حضرات کا علم کس طرح ہوسکتا ہے؟
(ھ) یہ بات کس طرح درست ہے کہ مجدد ہر ہجری صدی کے بارھویں سال کے شروع میں آتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱) اس حدیث کو امام ابو داؤد نے اپنی کتاب ’’سنن‘‘ میں سلیمان بن داؤد مہروی سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ہمیں عبداللہ بن دھب نے خبردی‘ انہوں نے کہا ’’ہمیں سعید بن ابی ایوب نے شراجیل بن یزید معافری سے خبر دی‘ انہوں نے ابو علقمہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور میرے علم کے مطابق ابو ہریره رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(إنَّ الله یَبْعَثُ عَلیٰ رَأْسِ کُلِّ مَائة عَامٍ مَنْ یُّصْلِحُ لِھَذِه الأُمَّة أَمْرَ دِینِھَا)
’’بے شک اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر سو سال کے سرے پر ایسا شخص بھیجے گا جو اس کے لئے اس کے دین کی تحدید کرے گا۔‘‘1
(1سنن ابی داؤد حدیث نمبر ۴۲۹۱‘ مستدرک حاکم ۴؍۵۳۲‘ بیہقی کی العرفۃ: ۵۲‘ خطیب کی تاریخ: ۲؍۶۱)
(۲) یہ حدیث صحیح ہے‘ اس کے سب راوی تقہ (قابل اعتماد) ہیں۔
(۳۔۴) ’’دین کی تجدید‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ دین جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مکمل کردیا ہے اور ان پراپنی نعمت کی تکمیل کردی ہے اور اسے ان کے لئے بطور دین پسند فرمایا ہے‘ جب اکثر لوگ اس دین کے راستے سے ہٹ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ایک یا زیادہ ایسے علماء اور مبلغین کو(دین کی خدمت کے لئے) کھڑا کردے گا جنہیں دین کی پوری سمجھ حاصل ہوگی۔ وہ قرآن مجید اور صحیح احادیث کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی کریں گے‘ انہیں بدعتوں سے بچائیں گے اور دین میں ایجاد ہونے والے نئے کاموں سے روکیں گے اور انہیں گمراہی سے ہٹا کر قرآن وسنت کی سیدھی راہ کی طرف لائیں گے۔ اسے امت کے لحاظ سے تجدید کہا گیا ہے‘ دین کے لحاظ سے نہیں جسے اللہ نے نازل کیا ہے اور مکمل فرمادیا ہے۔ کیونکہ تبدیلی‘ کمزوری اور انحراف کا وقتاً فوقتاً ظہور امت میں ہوگا۔ اسلام محفوظ رہے گا کیونکہ اللہ کی کتاب قرآن مجید اور اس کی وضاحت کرنے والی سنت نبوی کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴿٩﴾...الحجر
’’یقینا ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں‘‘
(۵) حدیث میں یہ نہیں ہے کہ اصلاح کرنے والے یہ حضرات بارھویں سال کے شروع میں آیا کریں گے۔ بلکہ وہ اللہ کے حکم اور حکمت کے مطابق ہر سو سال کے شروع میں‘ یعنی ہجری صدے کے شروع میں آئیں گے۔ کیونکہ وقت کا جو حساب معروف ہے وہ یہی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے بندوں پر فضل اور اس کی رحمت ہے اور اس طرح اس کی طرف سے بندوں پر حجت قائم ہوتی ہے کہ تاکہ اس تبلیغ و وضاحت کے بعد ہو کوئی عذر پیش نہ کرسکیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب