السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا دنیا میں اللہ تعالیٰ کی زیارت ظاہر طور پر ہوسکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ کی بنیاد پر توقیف پرہے۔ کسی کے لئے یہ چیز اسی وقت ثابت ہوتی ہے جب اس کے پاس دلیل موجود ہو۔ قرآن مجید سے واضح ہوتا ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔ جب انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (لَنْ تَرَانِی) ’’تو مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکے گا۔‘‘ اور حدیث سے ظاہر ہوتاہے کہ نبی ﷺ نے آنکھوں سے اللہ کی زیارت نہیں کی‘ صحیح مسلم میں حضرت مسروقﷺ سے روایت ہے کہ ’’میں(ام المومنین ) عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر تھا۔ ام المومنین نے فرمایا: ’’اے عائشہؓ تین باتیں ایسی ہیں‘ جس نے ان میں سے کوئی ایک بات کہی اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا…‘‘مسروق کہتے ہیں ’’میں ٹیک لگائے بیٹھا تھا‘ (یہ بات سن کر) میں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور عرض کی’’اے ام المومنین! مجھے (بات کرنے کی) مہلت دیجئے او رجلدی مت دیجئے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا:
﴿وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ ﴿٢٣﴾...التكوير
او رالبتہ تحقیق اس نے اسے (آسمان کے) روشن کنارے کو دیکھا۔‘‘
﴿وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ﴿١٣﴾...النجم
’’اور البتہ تحقیق اسنے اسے ایک اور مرتبہ دیکھا۔‘‘
ام المومنینؓ نے فرمایا:
’’امت میں سب سے پہلے میںنے یہ بات رسول اللہﷺ سے پوچھی تھی‘ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ جبرائیل تھے‘‘ میں نے انہیں اس صورت میں کبھی نہیں دیکھا جس پر انہیں پیدا کیا گیا ہے مگر ان دو موقعوں پر۔ میں نے انہیں آسمان سے اترتے دیکھا۔ ان کی عظیم خلقت نے آسمان اور زمین کے درمیان کی جگہ کو روک لیاتھا!
! یعنی وہ اس قدر عظیم الخلقت تھے کہ آسمان سے زمین تک وہی نظر آرہے تھے
پھر ام المومنینؓ نے فرمایا:
کیا آپ نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ﴿١٠٣﴾...الأنعام
’’آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ آنکھوں کا ادراک کرتا ہے اور وہ باریک بین ‘ باخبر ہے۔‘‘
کیا آپ نے نہیں سنا کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
﴿وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ ﴿٥١﴾...الشورى
’’کسی انسان کیلئے یہ لائق نہیں کہ اللہ اس سے ہم کلام ہو مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا یہ کہ قاصد بھیج دے اور وہ اللہ کے حکم سے جو چاہے وحی کرے بیشک وہ بلندیوں والاحکمتوں والا ہے۔‘‘
(صحیح بخاري حدیث نمبر: ۴۶۲۲‘ ۴۸۵۵‘ ۷۳۸۰۔ صحیح مسلم حدیث نمبر۱۷۷۔ جامع ترمذي حدیث نمبر: ۳۰۷۰)
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے جناب محمدﷺ سے سوال کیا’’کیاآپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’میں نے ایک نور دیکھا تھا۔‘‘
ایک روایت میں ہے ’’ وہ نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں؟‘‘( صحیح مسلم حدیث نمبر: ۱۷۸۔ جامع ترمذی حدیث نمبر: ۳۲۷۸)
صحیح مسلم میں ہی نبیﷺ کا یہ فرمان نبوی ہے:
(وَاعْلَمُو أَنَّه لَنْ یَرَی مِنْکُمْ أَحَدٌ رَبَّه حَتَّی یَمُوتُ)
’’جان لو! تم میں سے کوئی شخص مرنے سے پہلے اپنے رب کو ہرگز نہیں دیکھے گا۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمه الله عليہ نے فرمایا: ’’ائمہ مسلمین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کوئی مومن دنیا میں اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا ان کا اختلاف صرف نبی اکرم ﷺ کے بارے میں ہے اور اس مسئلہ میں بھی امت کے اکثر علماء بالااتفاق یہ رائے رکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے دنیا میں اپنی آنکھوں سے اللہ کی زیارت نہیں کی۔ نبیﷺ کی صحیح احیدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وائمہ کرام رحمہ اللہ علیہم کے اقوال سے یہی بات ثابت ہوتی ہے‘‘
یہ بات عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے نہ امام احمد رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ سے کہ انہوں نے کہا ہو کہ رسول اللہﷺ نے بشم سراللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے بلکہ ان سے یا تو مطلقا ’’دیکھنے‘‘ کا لفظ ثابت ہے۔ یا ’دل سے دیکھنے کا۔‘‘ واقعہ معراج بیان کرنے والی اس کسی صحیح حدیث میں یہ ذکر نہیں کہ نبیﷺ نے اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی زیارت کی۔ رہی وہ حدیث جو ترمذی وغیرہ نے روایت کی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
(أَتَانی رَبِّی فِی أَحْسَنِ صُورَة)
’’میرے پاس میرا رب بہترین صورت میں تشریف لایا‘‘(مسند احمد ج: اص: ۳۶۸‘ ج:۵‘ ص:۲۴۳۔ جامع الترمذی حدیث نمبر: ۳۲۳۲‘ ۳۲۳۳۔)
تویہ خواب کا واقعہ ہے جو مدینہ منورہ میں پیش آیا اور روایت میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ اسی طرح حضرت ام طفیل رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی جن احادیث میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کا ذکر ہے‘ وہ مدینہ منورہ کا واقعہ ہے اور احادیث میں ا سکی تصریح موجود ہے اور معراج تومکہ مکرمہ میں ہوئی تھی جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى ...١﴾...الإسراء
’’پاک ہے وہ اللہ جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گیا۔‘‘
قرآن مجید میں صریح الفاظ میں موجود ہے کہ موسی علیہ السلام سے فرمایا گیا تھا۔
(لَنْ تَرَانِیْ) ’’تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکے گا۔‘‘
اور اللہ کے دیدار کا معاملہ آسمان سے کتاب نازل کرنے سے عظیم ترہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚفَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَكْبَرَ مِن ذَٰلِكَ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّـهَ جَهْرَةً...١٥٣﴾...النساء
’’اہل کتاب آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے لکھی لکھائی کتاب ناز کریں۔ انہوں نے موسی علیہ السلام سے اس سے بھی بڑا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں صاف طور پر اللہ تعالیٰ کو دکھادیجئے۔‘‘
اس لئے جو شخص کہتا ہے کہ کوئی انسان اللہ تعالیٰ کو دیکھ سکتا ہے تو وہ گویا یہ کہہ رہا ہے کہ وہ شخص جناب موسیٰ علیہ السلام سے بھی عظیم ہے۔اور اس کادعویٰ تو اس شخص سے بھی بڑھ کر ہے جو کہنے لگے کہ ا للہ نے مجھ پر آسمان سے کتاب نازل کی ہے۔ (خلاصہ کلام یہ ہے کہ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام اور ائمہ مسلمین سب کا موقف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی زیارت آنکھوں سے آخرت میں ہوگی‘ دنیا میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن خواب میں اس کی زیارت ہوسکتی ہے اور دلو ں کے حالات کے مطابق قلبی مکاشفات اور مشاہدات ہوسکتے ہیں۔ بسا اوقات کسی شخص کا قلبی مشاہدہ اس قدر قوی ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ آنکھ سے دیدار ہوا ہے۔ یہ ا سکی غلط فہمی ہے اور دلوں کے مشاہدات بندوں کے ایمان ومغفرت کے مطابق (قوی اور ضعیف یا کم اور زیادہ) ہوتے ہیں اور اس کی مغفرت مثالی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ !! فتاویٰ جلد: ۲‘ صفحہ: ۳۳۵
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب