السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اجتماعی دعا فرض نمازوں کے بعد یا نماز تراویح کے بعد کے متعلق روایتیں درایۃ وروایۃ صحیح ہیں یا نہیں یہ احادیث مولانا محمد اسحاق صاحب شاہد نے اجتماعی دعا کے ثبوت کے سلسلہ میں پیش کی ہیں ؟
پہلی دلیل : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ کس وقت دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے بعد (مشکوۃ شریف ص89 ترمذی شریف)
دوسری دلیل :
« عَنْ سَلْمَانَ قال قال رسول اﷲ ﷺ مَا رَفَعَ قَوْمٌ اَکُفَّهُمْ اِلَی اﷲِ عَزَّوَجَلَّ سَأَلُوْا شَيْئًا اِلاَّ کَانَ حَقًّا عَلی اﷲِ عَزَّوَجَلَّ»(الحديث رواه الطبرانی فی الکبير ورواته ثقات كلهم مجمع الزوائد)
ترجمہ : حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی قوم اپنی ہتھیلیوں کو سوال کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں اٹھاتی مگر اللہ تعالیٰ ضرور ان کے ہاتھوں میں وہ چیز رکھتا ہے جس کا انہوں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا ہے۔
میرے بھائیو اس حدیث کو غور سے پڑھئے اور لفظ قوم پر دھیان کیجئے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اجتماعی دعا کرنی چاہیے قوم میں ایک آدمی یا دو آدمی نہیں ہوتے قوم کثیر لوگوں پر بولا جاتا ہے ۔ مذکورہ بالا حدیث طبرانی کبیر میں ہے اور مجمع الزوائد میں بھی ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔
تیسری دلیل :
« عَنْ اَنَسٍ قَالَ قالَ رَسُوْلُ اﷲِ مَا اجْتَمَعَ ثَلاَثَةٌ بِدَعْوَةٍ قَطُّ اِلاَّ کَانَ حَقًّا عَلَی اﷲِ اَنْ لاَّ يَرُدَّ اَيْدِيَهُمْ صِفْْرًا»(رواه البيهقی فى شعب الايمان)
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا تین آدمی اکٹھے ہو کر دعا نہیں کرتے کبھی بھی مگر اللہ تعالیٰ ضرور ان کے ہاتھوں کو خالی نہیں لوٹائے گا اس حدیث کو غور سے پڑھئے اس میں بھی تین آدمی کے اجتماع کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ حدیث بیہقی شعب الایمان میں ہے ۔
چوتھی دلیل :
« اِنَّ رَسُوْلُ اﷲِکَانَ اِذَا فَرَغَ مِنْ صَلٰوتِه رَفَعَ يَدَيْهِ وَضَمَّهُمَا وَقَالَ اَیْ دَعَا»(كتاب الزاهد والرقائق ص405)
ترجمہ : یعنی رسول اللہﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ملا کر رکھتے اور دعا کرتے یا درکھیں دعا مانگتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر رکھنا چاہیے جو علیحدہ علیحدہ رکھتے ہیں وہ سنت رسول کے خلاف ہے اور بالکل غلط ہے۔
پانچویں دلیل : علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور تابعین کے ساتھ ان کا یہ واقعہ منقول ہے کہ طلوع فجر کے وقت صبح کی اذان کہی گئی ۔ حضرت علاء صحابی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی جب نماز کو پورا کر لیا یعنی نماز سے فارغ ہوئے ’’ وَنَصَبَ فِی الدُّعَائِ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَفَعَلَ النَّاسُ مِثْلَه ‘‘
یعنی حضرت علاء رضی اللہ عنہ نے اور تمام لوگوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی اس حدیث کو بھی بار بار پڑھیں تو اس واقعہ سے اور صحابہ کرام کے عمل سے یہی پتہ چلے گا کہ فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا مانگنی چاہیے۔
جو حضرات اس کو بدعت کہتے ہیں یا لوگوں کو دعا کرنے سے منع کرتے ہیں وہ در حقیقت جاہل ہیں اور بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہیں ۔
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ٱدۡعُونِيٓ أَسۡتَجِبۡ لَكُمۡۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَسۡتَكۡبِرُونَ عَنۡ عِبَادَتِي سَيَدۡخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ﴾--سورة غافر60
’’اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعائوں کو قبول کروں گا۔ یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے‘‘
اس آیت کا ترجمہ پڑھیں ۔ پھر توبہ کریں کہ آئندہ کسی کو اجتماعی دعا کرانے سے نہیں روکو گے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میں نے مولانا محمد اسحاق صاحب شاہد امام چھوٹی مسجد اہل حدیث جوڑیا بازار کراچی کا تحریر کردہ تبلیغی سلسلہ نمبر ۱۰ بغور پڑھا انہوں نے اس میں بزعم خود پانچ دلیلیں پیش فرمائی ہیں نیچے پہلے محل نزاع کو متعین کیا جاتا ہے پھر ان پانچ دلائل کا جائزہ پیش کیا جائے گا ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
محل نزاع کا تعین : فرضی نمازوں کے بعد ذکر اور دعا کرنے میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں کیونکہ فرضی نمازوں کے بعد ذکر اور دعاء کرنا رسول اللہﷺ کے قول اور عمل سے ثابت ہے جیسا کہ کتب حدیث کے مطالعہ سے واضح ہے نزاع واختلاف ہے تو فرضی نمازوں کے بعد دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانے میں ہے۔
دلائل کا جائزہ : جناب شاہد صاحب کی پیش کردہ پہلی دلیل میں فرضی نمازوں کے بعد دعاء کے قبول ہونے کا تذکرہ ہے اور ہم تسلیم کرتے ہیں واقعی فرضی نمازوں کے بعد دعاء کے قبول ہونے کا وقت ہے اور ہم خود فرضی نمازوں کے بعد دعا کرتے ہیں اور کیوں نہ کریں جب کہ رسول اللہﷺ سے فرضی نمازوں کے بعد دعا کرنا ثابت ہے اور اس میں نزاع واختلاف بھی نہیں رہا ہاتھ اٹھانا تو اس کا اس دلیل میں ذکر تک نہیں تو المختصر جو چیز محل نزاع تھی اس کا تو اس دلیل میں ثبوت نہیں اور جس چیز کا اس دلیل میں ثبوت ہے وہ محل نزاع ہی نہیں ۔
دوسری دلیل میں ہاتھ اٹھانے کا ثبوت تو ہے مگر اس میں فرضی نمازوں کے بعد کی تخصیص نہیں یہ دلیل تو اذان اور تکبیر کے درمیان فرضی نمازوں سے قبل دعا کرنے مسجد میں داخل اور اس سے خارج ہوتے وقت دعا کرنے اور گھر میں داخل اور اس سے خارج ہوتے وقت دعا کرنے پر بھی چسپاں ہوتی ہے تو کیا جناب شاہد صاحب اور ان کے ہمنوا ان مقاموں پر بھی ہاتھ اٹھاتے ہیں آخر کیوں وہ ان مقاموں پر ہاتھ اٹھانے کو فرضی نمازوں کے بعد والی دعا میں ہاتھ اٹھانے والی حیثیت نہیں دیتے ؟ جبکہ دلیل دونوں دعائوں پر یکساں چسپاں ہو رہی ہے اگر وہ فرمائیں ان مقاموں پر ہاتھ اٹھانا رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں تو فرضی نمازوں کے بعد بھی ہاتھ اٹھانا رسول اللہﷺسے ثابت نہیں ہے۔
تیسری دلیل کا جائزہ دوسری دلیل کے جائزہ کے ضمن میں بیان ہو چکا ہے ۔ چوتھی دلیل شاہد صاحب نے کتاب الزہد والرقائق ص ۴۰۵ کے حوالہ سے ذکر کی ہے یہ کتاب ہمارے ہاں موجود نہیں لہٰذا شاہد صاحب کی خدمت میں گذارش ہے کہ اس دلیل کی سند اصل کتاب سے نوٹ فرما کر ہمیں بھیجیں تاکہ پتہ چل سکے یہ روایت صحیح بھی ہے یا نہیں۔ پانچویں دلیل کا انہوں نے سرے سے کوئی حوالہ ہی نہیں دیا پھر وہ مرفوع بھی نہیں لہٰذا ان سے اپیل ہے کہ اس کا حوالہ لکھیں ۔ ایک آیت ﴿وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیٓ﴾ بھی لکھی ہے اس میں صرف دعا کرنے کا حکم ہے جس کے ہم بفضلہ تعالیٰ قائل وعامل ہیں یہ ہاتھ اٹھانے کی دلیل نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب