سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(623) جس امام کی قراءت کمزور ہو کیا وہ استعفیٰ دے دے ؟ ایک ہی ہفتہ میں بعض سورتوں کے بار بار پڑھنے کا حکم ؟

  • 16887
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 847

سوال

(623) جس امام کی قراءت کمزور ہو کیا وہ استعفیٰ دے دے ؟ ایک ہی ہفتہ میں بعض سورتوں کے بار بار پڑھنے کا حکم ؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1. میں ریا ض کے مضا فا ت میں ایک مسجد میں امام ہو ں ۔میر ی مشکل یہ ہے کہ میں تجو ید و قر ات میں کمزور ہو ں  اور پڑھنے میں غلطیاں بہت کر تا ہو ں مجھے قر آن مجید کے تین پا ر ے اور بعض سورتوں کی بعض آ یا ت یا د ہیں لیکن میں اس ذ مہ دا ری کے با ر ے میں بہت ڈر تا ہو ں لہذا برا ہ کر م رہنما ئی فر ما یئے کیا میں امامت کا سلسلہ جا ر ی رکھو ں یا مستعفی ہو جا ؤ ں ؟

2. ہما ر ی مسجد کے بعض لو گ نما ز فجر کے با جما عت ادا کر نے میں کو تا ہی کر تے ہیں میں نے انہیں بار بار سمجھا یا ہے لیکن بے سو د تو کیا میں ان کی محکمہ میں شکایت کر دو ں یا نصیحت کر تا رہو ں ؟

3. کیا یہ جا ئز ہے کہ قرآ ن مجید کی ایک ہی سو ر ۃ کو ہفتہ میں دوبار یا تین یا اس سے بھی زیا دہ دفعہ پڑھا جا ئے ؟ برا ہ کر م رہنما ئی فر مائیں (جزا کم اللہ خیر ا )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1. آپ کو جس قدر قرآن مجید یا د ہے اس کے حفظ و تجو ید میں خوب محنت کر یں اور اگر آپ کی نیت نیک ہو ئی اور آپ نے خو ب مقدور بھر کو شش کی تو پھر آپ کو اللہ تعا لیٰ کی طرف سے خیرو بر کت کی بشارت ہو ! کیو نکہ ارشادباری تعا لیٰ ہے :

﴿ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مِن أَمرِهِ يُسرًا ﴿٤﴾... سورة الطلاق

"اور جو اللہ سے ڈر ے گا اللہ اس کے کا م میں سہو لت پیدا کر دے گا"

اور نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د ہے ۔

«الماهر بالقرآن مع السفرة الكرام البررة والذي يقراء القرآن ويتمتع فيه وهو عليه شاق له اجران»(صحیح مسلم )
" قرآن مجید کے ما ہر کو معزز اور نیکو کا ر فر شتو ں کا سا تھ نصیب ہو گا اور جو قرآن پڑ ھتا اور اس میں اٹکتا ہے اور قرآن مجید پڑھنا اس کے لئے بہت مشکل ہے تو اسے دو گنا ہ ثوا ب ملے گا ۔ہمآپ کو یہ مشو رہ نہیں دیں گے کہ استعفیٰ دے دو بلکہ یہ مشو رہ دیں گے کہ مسلسل محنت اور صبر و کو شش سے کا م لو حتی کہ کتا ب اللہ کے مکمل حفظ و تجو ید میں کامیا ب ہو جا ئے یا قر آن مجید کا جتنا حصہ اللہ تعا لیٰ حفظ کر نے کی تو فیق عطا فرماتے اتنا حفظ کر لو ۔ اللہ تعا لیٰ آپ کو تو فیق بخشے اور آسا نی فرمائے ۔
2.ہم آ پ کو یہ مشو رہ دیں گے ان لو گو ں کو مسلسل سمجھا تے رہو اور جما عت کے خا ص خا ص احبا ب کو سا تھ لے کر ان کے پا س بھی جاؤ اور بتا ؤ کہ نماز با جما عت ادا نہ کر نے کے کس قدر نقصا نا ت ہیں اور سب سے بڑ ی با ت یہ ہے کہ  یہ نفا ق کی نشا نی ہے ہو سکتا ہے کہ آ پ لو گو ں کی با ت کو قبو ل کر کے یہ لو گ را ہ را ست پر آجا ئیں صحیح حدیث سے ثا بت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا :
«اثقل الصلاة المنافقين صلاة العشاء وصلاة الفجر ولو يعلمون مافيهما لا توهما ولو حبوا »(صحيح بخاری)

 منا فقو ں پر سب سے بھا ری  نما ز عشا ء اور صبح کی نماز ہے  اور اگر انہیں معلو م ہو کہ ان نماز و ں مین کس قدر اجر و ثو ا ب ہے تو وہ ضر و آئیں گے خو اہ گھنٹوں کے بل چل کر ،اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د ہے کہ :

«من سمع النداء فلم يات فلا صلاة له الا من عذر» (سنن ابن ماجه)

"جو شخص اذا ن سے اور مسجد میں نماز کے لئے نہ آئے  تو اس کی نماز نہیں الا یہ کہ کو ئی ( معقو ل شر عی ) عذر ہو ۔ ’’

 ایک نا بینا آدمی نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اجا ز ت طلب کی کہ اس کے پا س کو ئی معا ون نہیں جو اسے مسجد میں لے جا سکے تو کیا اس کے لئے گھر میں نما ز پڑھنے کی اجازت ہے ؟ تو آپ نے فر ما یا :

«هل تسمع النداء بالصلاة؟ قال نعم :قال فاجب» (صحیح مسلم)

کیا تم اذا ن کی آواز سنتے ہو ؟ اس نے جو ا ب دیا ہا ں تو آپ نے فر ما یا "پھر اس کی آوا ز پر لبیک کہو ۔"

 ایک دوسری حدیث میں الفا ظ یہ ہیں کہ :

«لااجد لك رخصة» (سنن ابی داؤد)

 میں تمہا رے لئے کو ئی اجا ز ت نہیں پا تا ۔ "

حضرت عبد اللہ بن مسعو د  رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کبا ر صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین میں شما ر ہو تے ہیں فر ما تے ہیں :

«لقد رايتنا وما يتخلف عنها الا منافق معلوم النفاق»(سنن ابی داؤد )

"ہم نے دیکھا ہے کہ نما ز با جما عت سے صرف وہی شخص پیچھے رہتا تھا جو واضح  طو ر پر منا فق  ہو تا تھا ۔"

ہر مسلما ن کے لئے یہ وا جب ہے کہ وہ نماز با جما عت کی حفا ظت کر ے اور با جما عت سے پیچھے  رہنے میں احتیاط کر ے ائمہ مسا جد پر بھی وا جب ہے کہ نما ز با جما عت سے پیچھے رہنے والو ں کو سمجھا تے رہیں انہیں نصیحت کر تے رہیں اور اللہ کے غضب و عقا ب ڈراتے رہیں اور اگر وہ وعظ و نصیحت سے بھی با ز نہ آئیں تو وا جب ہے کہ نماز با جما عت سے پیچھے رہنے وا لو ں کے محکمہ کے اس دفتر پیش کیا جا ئے جو محلہ کی مسجد میں ہے تا کہ محکمہ ان کے با ر ے میں قا نو نی کا ر وا ئی کر سکے ہم اللہ تعا لیٰ سے سوا ل کر تے ہیں کہ وہ مسلما نوں کو نیکی و تقو ی کے اختیا ر کر نے اور اللہ تعا لیٰ کے غضب و عقا ب سے بچنے کی توفیق عطا فر ما ئے ۔

3. اس با ت کی اجا ز ت ہے کہ ایک سو رۃ کو ہفتہ میں یا ایک ہی دن میں با ر با ر پڑ ھ لیا جا ئے اس کے لئے کو ئی پا بندی نہیں بلکہ یہ بھی جا ئز ہے کہ ایک ہی نما ز میں سو ر ۃ فا تحہ کے بعد دونو ں رکعتوں میں ایک ہی سو ر ۃ کو پڑ ھ لیا جا ئے جیسا کہ صحیح حدیث سے ثا بت ہے کہ :

«انه قرا سورة﴿اذا ذلزلت﴾ في الركعتين الاوليٰ والثانية»( سنن ابی دا ؤد )
"نبی کر یم سے پہلی اور دو سر ی دو نو ں رکعتو ں میں سو ر ۃ ﴿اذا ذلزلت﴾کی تلا وت فر ما ئی ۔( شیخ ابن با ز رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 503

محدث فتویٰ

تبصرے