سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(612) تارک نماز گھر میں نماز پڑھنے والے اور نماز کو لیٹ کرکے پڑھنے والے کے لئے حکم

  • 16876
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1095

سوال

(612) تارک نماز گھر میں نماز پڑھنے والے اور نماز کو لیٹ کرکے پڑھنے والے کے لئے حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تارک نماز کے لے کیا حکم ہے؟ جوشخص باجماعت نماز ادا کرنے میں کوتاہی کرکے گھر میں نماز پڑھتا ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟اور جو شخص نماز کو وقت سے موخر کرکے پڑھتا ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ تین الگ الگ مسئلے ہیں ان میں سے پہلے مسئلے کاجواب یہ ہے کہ ترک نماز کفرہے جس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے۔یعنی جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔اور اگر شادی شدہ ہو تو ترک نماز سے اس کی بیوی کانکاح ٹوٹ جائےگا۔اس شخص کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا بھی حلال نہیں اور نہ اس کا روزہ اورصدقہ قبول ہوتا ہے۔ بے نماز کا مکہ مکرمہ میں جانا اورحرم میں داخل ہونا بھی جائز نہیں اور جب وہ فوت ہوجائے تو اے غسل دینا کفن پہننا جنازہ پڑھنا اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا بھی جائز نہیں بلکہ جنگل میں گڑھا کھود کر اسے دبا دیاجائے جس شخص کا کوئی ایسا قریبی رشتہ دار فوت ہوجائے جو بے نماز ہو تو اس کے لئے حلال نہیں کہ لوگوں کو دھوکا دے کر اس کی نماز جنازہ پڑھنے کی دعوت دے کیونکہ کافر کی نماز جنازہ پڑھنا حرام ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلا تُصَلِّ عَلىٰ أَحَدٍ مِنهُم ماتَ أَبَدًا وَلا تَقُم عَلىٰ قَبرِهِ إِنَّهُم كَفَروا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ... ﴿٨٤﴾... سورة التوبة

''اور(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !)ان میں سے کوئی مرجائے تو کبھی اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر(جا کر) کھڑے ہونا 'یہ اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ کفر کرتے رہے۔''

نیز فرمایا:

﴿ما كانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذينَ ءامَنوا أَن يَستَغفِروا لِلمُشرِكينَ وَلَو كانوا أُولى قُربىٰ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُم أَنَّهُم أَصحـٰبُ الجَحيمِ ﴿١١٣﴾... سورة التوبة

''پیغمبر اور مسلمانوں کو لائق نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل دوزخ ہیں تو ان کے لئے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قرابت دار ہی کیوں نہ ہو۔''

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص مسجد میں نماز باجماعت ادا نہیں کرتا بلکہ اپنے گھر میں ادا کرتاہے۔تو وہ کافر نہیں بلکہ فاسق ہےاوراگر وہ اس پراصرارکرے تو وہ اہل فسق کے ساتھ شامل ہوجائے گا۔اور وہ گواہی کے لئے عادل نہ رہے گا۔

تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ نماز میں اس قدردیرکردینا کہ وقت ہی ختم ہوجائے تو اس شخص کا گناہ اس سے زیادہ ہے جوجماعت کے ساتھ نماز تو ادا نہیں کرتا لیکن وہ وقت پر پڑھتاہے۔لیکن اس شخص سے یہ بہرحال بہتر ہے جو بالکل ہی نہیں پڑھتا۔بہرحال نماز کامسئلہ ان انتہائی اہم امور میں سے ہے۔جن کا اہتمام کرنا ایک مرد مومن کے لئے ضروری ہے کیونکہ نماز اسلام کی عمارت کاستون ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور ظاہر ہے کہ جس عمارت کاستون ہی نہ ہو وہ عمارت مضبوط ومستحکم نہ ہوگی۔مسلمانون کو آپس میں ایک دوسرے کی ہمدردی وخیر خواہی کرتے رہنا نماز کا حکم دیتے رہنا اور خود بھی بہت زوق وشوق اور اہتمام کے ساتھ نماز ادا کرتے رہنا چاہیے۔(شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 495

محدث فتویٰ

تبصرے