سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(609) مسجدوں کے بجائے سرکاری دفاتر میں نماز پڑھ لینا

  • 16873
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 680

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ملازمین کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے دفتروں میں نماز ادا کرلیں۔حالانکہ مسجدیں بھی ان کےپڑوس میں ہوتی ہیں یا ان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ مسجد ہی میں نماز اد ا کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی اور قولی سنت یہ رہی ہے کہ نماز کو مسجد میں باجماعت ادا کیا جائے اور آپ نے ان لوگوں کے گھروں کو آگ سے جلادینے کا ارادہ فرمایا جو نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے مسجد میں نہیں آتے۔آپ کے بعد خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اورتابعین رحمۃ اللہ علیہ کا معمول بھی مسجد میں نماز ادا کرنا تھا صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«من سمع النداء فلم يات فلا صلاة له الا من عذر» (سنن ابن ماجه)

''جو شخص آذان سنے اور پھر نماز کے لئے نہ آئے تو اس کی نماز نہیں ہوتی الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔''

اوریہ بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ ایک نابینا آدمی نے عرض کیا ''یارسول اللہ !( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے پاس کوئی معاون نہیں جو مجھے مسجد میں لے جاسکے تو کیا مجھے گھر میں نماز ادا کرنے کی اجازت ہے؟'' آپ نے فرمایا:

«هل تسمع النداء بالصلاة؟ قال نعم :قال فاجب »(صحیح مسلم)

''کیا تم نماز کےلئے اذان سنتے ہو؟'' تو اس نے کہا ''جی ہاں ''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا'' پھر اذان کی آواز پر لبیک کہو۔''

ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ آپ نے فرمایا:

«لااجد لك رخصة» (سنن ابی داؤد)

'' نہیں میں تمہارے لئے کوئی رخصت نہیں پاتا۔''

اس سے یہ واضح ہوا کہ تمام دفتروں وغیرہ کے ملازمین کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ نماز ظہر کسی قریبی مسجد میں ادا کریں تاکہ سنت کے مطابق عمل ہو واجب ادا ہو مسجدوں میں نماز کی ادایئگی سے پیچھے رہنے کے حیلوں بہانوں کا سدباب ہو اور اہل نفاق کی مشابہت سے اجتناب ہو۔(وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم)(فتویٰ کمیٹی)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 494

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ