سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(602) یونیورسٹی کے ایام تعلیم میں نماز ترک کر دینا

  • 16866
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 853

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مسلمان عاقل نوجوان یونیورسٹی میں داخلہ سے پہلے نماز پڑھتا تھا لیکن جب تک وہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہا اس نے نماز ترک کردی اور یہ مدت چار سال پر محیط ہے۔یونیورسٹی سے سندفراغت حاصل کرنے کے بعد اس نے نماز پھر شروع کردی ان چار سالوں میں نماز نہ پڑھنے کے بارے میں اب کیا حکم ہے؟ یاد رہے کہ اس عرصہ میں بھی وہ نماز کی فرضیت کامنکر نہیں ہوا لہذا سوال یہ ہے کیا وہ ان چار سالوں کی فوت شدہ نمازوں کی قضاء دے گا یا اس کے لئے توبہ ہی کافی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہاں تک ہمیں معلوم ہے۔علماء کے اقوال میں سے صحیح قول یہ ہے کہ جوشخص عمداً نماز ترک کرے وہ فوت شدہ نماز کی قضاء نہ دے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ إِنَّ الصَّلو‌ٰةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـٰبًا مَوقوتًا ﴿١٠٣﴾... سورة النساء

‘‘بے شک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ)میں اداکرنا فرض ہے۔’’

اس آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ فرض نمازوں کے اوقات متعین ہیں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شب معراج کی صبح ان اوقات کو بیان کردیا تھا۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل اور قول سے امت کے لئے ان اوقات کی حد بندی کردی ہے۔ لہذا ان اوقات میں تقدیم وتاخیر جائز اور صحیح نہیں ہے۔ اور اس لئے بھی کہ ہمارے علم کے مطابق علماء کے اقوال میں سے صحیح قول یہ ہے کہ تارک نماز کافر ہے۔لہذا جب وہ توبہ کرلے تو اسے ایام کفر کی ان عبادات کی قضاء لازم نہیں ہے۔ جن کے اوقات مقرر ہیں۔اگر وہ سچی توبہ کررہا ہے تو اس کے لئے خیر کی اُمید ہے۔ لہذا اسے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنا اور زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرنے چاہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مفہوم خطاب سے بھی اس کی تایئد ہوتی ہے کہ:

«من نام عن الصلاة او نسيها فليصلها ازا ذكرها» (صحيح البخاری)

''جو شخص نماز سے سو جائے یا بھول جائے تو اسے جب بھی یاد آئے پڑھ لے۔''

تو اس کامفہوم یہ ہے کہ جو شخص قصد وارادہ سے نماز ترک کرے اس کے لئے یہ حکم نہیں ہے۔قصد وارادہ کے ساتھ عمداً نماز ترک کرنے والے کو سوئے یا بھولے ہوئے پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔کیونکہ قصد وارادہ کے ساتھ ترک کرنے والا معذور نہیں ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی اور وقت مقرر نہیں کیا۔جس میں وہ فوت شدہ نماز کو ادا کرسکے جب کہ سویا اور بھولا ہوا دونوں معذور ہیں۔ لہذا ان کے لئے ایک وقت مقرر کردیا ہے۔ جس میں وہ فوت شدہ نماز کو پڑھ سکتے ہیں۔وباللہ التوفیق ((وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم))(فتویٰ کمیٹی)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 488

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ