سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(590) کیا تارک نماز کے بارے میں لوگوں کو بتانا جائز ہے؟

  • 16854
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 868

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب بعض لوگوں کے بارے میں مجھے یہ علم ہو کہ وہ نماز پڑھتے ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ کا زکر کرتے ہیں۔ بلکہ اس کی بجائے وہ ایسے بُرے اعمال کرتے ہیں۔ جن سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوتے ہیں۔تو کیا یہ جائز ہے کہ میں انہیں سرزنش کروں تاکہ لوگوں کو بھی ان کے بارے میں معلوم ہوجائے یا یہ جائز نہیں ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سب سے  پہلے تو آپ پر یہ واجب ہے کہ اسے نصیحت کریں کہ وہ ان کاموں کوکرے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اور ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔اگر وہ بات مانے خواہ آہستہ آہستہ ہی صحیح تو اس کے ساتھ مقدو ر بھر نصیحت کا یہ سلسلہ جاری رکھو وگرنہ مقدور بھر اس سے اجتناب کرو تاکہ فتنہ سے بچ سکو اور منکر سے کنارہ کشی کرسکو اور پھر اس کے بعد وہ شخص واجبات میں جو کوتاہی کرتا ہے۔ اور منکرات کو بجالاتا ہو اس کے بارے میں لوگوں کو بوقت ضرورت بتاسکتے ہوتاکہ لوگوں کو اس کے بارے میں صحیح صورت حال کا علم ہواور لوگ اس کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔اور اگر کوئی شخص اس کے ساتھ پڑوس اختیارکرنے یا کاروبار میں شراکت کرنے یا مثلا ایسے شخص کو کسی خدمت وغیرہ کے لئے رکھنے کی وجہ سے آپ سے مشورہ کرے یا آپ کو کسی کے بارے میں یہ خدشہ ہو کہ وہ اس کے جال میں پھنس جائے گا یا اس کے شر میں مبتلا ہوجائے گا۔ تو ان تمام صورتوں میں لوگوں کو اس کے حال سے آگاہ کرنا واجب ہے۔ تاکہ اچھے لوگوں کو اس کے شر سے بچایا جاسکے اور اس کے بارے میں یہ توقع ہو کہ جب اچھے لوگ اس سے کنارہ کشی اختیار کریں گے تو شاید یہ بھی اپنی اصلاح کرسکے گا۔یہ جائز نہیں کہ آپ اس کے بُرے سیرت کردار کو اپنے لئے یا لوگوں کے لئے مثال قرار دیں یا مجلسوں اور محفلوں میں اس کا مذاق اڑاتے پھریں کیونکہ اس طرح بھی شر پھیلتا ہے۔ لوگ بے حس ہوجاتے ہیں۔ اور بری باتیں سنتے سنتے برائی کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ اور یہ بھی جائز نہیں کہ اسے بہت ہی بُرا ثابت کرنے کے لئے آپ اس کی طرف ایسی ایسی برایئاں اور ایسے ایسے بدترین اعمال منسو ب کریں جو اس نے کئے ہی نہ ہوں کیونکہ یہ کذب اور بہتان ہے۔اور اس سے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔(شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 474

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ