السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یہاں ایک کمپنی (قدرتی چشموں کا) پانی بوتلوں وغیرہ میں بھر کر سپلائی کرتا ہے۔ اس نے پبلسٹی کے لئے بڑے بڑے بورڈ تیار کروا کر شاہراہوں پر نصب کئے ہیں۔ بورڈ پر زمین سے پانی کا چشمہ ابلنے کا منظر دکھایا گیا ہے اور یہ عبادت لکھی گئی ہے۔
(لَا زَالَ فِی عَالَمِنَا بَعْضُ ھِبَاتِ الطّبیعَة)
’’ہماری دنیا میں اب بھی فطرت کے عطیات موجود ہیں۔‘‘
میں نے کہا کہ یہ عبارت شرعی طور پر درست نہیں۔ کیونکہ ہمیں پانی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ فطرت نے نہیں‘ اس طرح کے الفاظ تو کمیونسٹ بولا کرتے ہیں‘ میں نے کہا ’’وہ فطرت ‘‘ کیا چیز ہے جس کے بارے میں تم یہ دعویٰ کرتے ہو کہ وہ آزاد ارادہ کی مالک ہے اور وہ پانی وغیرہ بخشتی ہے؟‘‘ انہوں نے اس کے جواب میں کہا یہ ’’عبارت ’’مجاز‘‘ کے طریقہ پر کہی گئی ہے۔ جس طرح ہم کہتے ہیں اور بعض اسے صحیح بھی سمجھتے ہوں گے۔ جس سے ان کے عقیدہ کو خطرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کو دوبارہ دین کی طرف آنے کی توفیق بخشے اور صحیح عقیدہ رکھنے کی توفیق دے جس میں کسی قسم کا شک وشبہ یا التباس نہ ہو۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ لکھنا جائز نہیں کہ
(لَا زَالَ فِی عَالَمِنَا بَعْضُ ھِبَاتِ الطّبیعَة)
’’ہماری دنیا میں اب بھی فطرت کے عطیات موجود ہیں۔‘‘
اگرچہ اس کے مجاز ہونے کا دعویٰ ہی کیا جائے۔ کیونکہ اس میں ایک طرح کی تلبیس ہے اور اس کی وجہ سے لوگ ملحدین کے افکار سے مانوس ہوتے ہیں۔کیونکہ بہت سے کافر‘ اللہ کے وجود کے منکر ہیں اور وہ خیروشر کی نسبت غیر اللہ کی طرف حقیقی معنی کے لحاظ سے کرتے ہیں۔ اس لئے مسلمان کو چاہئے کہ اپنی زبان اور قلم کو اس قسم کی عبارتوں سے بچائے تاکہ وہ اہل الحاد کے مظاہر میں شریک نہ ہو اور اس قسم کی باتوں سے دور رہے جو وہ اسلام کے خلاف آپس میں کرتے ہیں تاکہ ظاہری سیرت بھی شرک کی ملاوٹ سے پاک رہے اور دلی عقیدہ بھی۔ مسلمان کا فرض ہے کہ نصیحت قبول کرے اور اپنی غلطی کو صحیح ثابت کرنے کیلئے باتیںنہ بنائے اور اپنے موقف کو جائز ثابت کرنے کیلئے بہانہ جوئی نہ کرے۔ کیونکہ حق ہی قابل اتباع ہے اور بزرگوں نے فرمایا ہے:
(إیَّاکَ وَمَا یُعْتَذَرُ مِنْه)
’’اس کام سے پرہیز کرو جس سے بعد میں معذرت کرنی پڑے۔‘‘
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب