السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو شخص کسی مسلمان کو کافر کہے اس کے بارے میں دین اسلام کا کیا فیصلہ ہے؟ مصر میں ایک جماعت پیدا ہوئی ہے جو شرک باللہ کے علاوہ بھی کسی گناہ کے ارتکاب کرنے پر مسلمان کو کافر قرار دے دیتی ہے۔ تو کیا‘ اللہ کی نافرمانی کے اعمال کا صدور اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب ایک انسان کو کافر بنادیتا ہے حالانکہ وہ لا اله الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرتاہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کبیرہ گناہ اپنی شناخت اور شدت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان میں سے کچھ تو شرک ہیں‘ کچھ نہیں۔ اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ وہ شرک کے سواکسی گناہ کے مرتکب کو کافر نہیں کہتے۔ مثلاً قتل‘ شراب‘ زنا‘ چوری‘ یتیم کا مال کھانا‘ پاک دامن خواتین کو بدکاری کی تہمت لگانا‘ سود کھانا اور دوسرے کبیرہ گناہ۔ لیکن مسلمان حاکم کا فرض ہے کہ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں پر اسلامی شریعت کے مطابق حد یا تعزیر نافذ کرے اور مجرم کا فرض ہے کہ وہ توبہ واستغفار کرے۔ لیکن ایسے کبیرہ گناہ (جن کا تعلق عقیدہ سے ہے) جیسے اللہ کے سوا کیس سے فریاد کرنا‘ مثلاً مصیبت سے نجات کیلئے فوت شدہ بزرگوں کو پکارنا اور ان کے لئے نذر ماننا اور ان کے لئے جانور قربان کرنا‘ اس قسم کے کبیرہ گناہ کفر اکبر ہیں۔ جو شخص کوئی ایسا کام کرے اسے صحیح مسئلہ بتانا چاہئے اوردلائل سے خوب واضح کرنا چاہے ۔ اس وضاحت اور تبلیغ کے بعد اگر وہ توبہ کر لے تو اس کی توبہ قبول ہوگی۔ ورنہ مسلمان حکمران اسے مرتد قرار دے کر سزائے موت دے گا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب