السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس صلیب کی کیفیت کیا ہے جس سے منع کیاگیا ہے اور اس کے پہننے پر تنبیہ کی گئی ہے۔ کیا اس کی کئی قسمیں ہی؟ اگر کوئی مسلمان گھڑی‘ پین وغیرہ فروخت کرنے کیلئے کسی کمپنی کا نمائندہ (ایجنٹ) ہو‘تو کیا اس کے لئے جائز ہے کہ کمپنی کی اشیاء کی نمائش کے لئے عیسائیوں کو ملک میں بلائے؟ اور نمائش کے موقع پر اس غیر مسلم ملک کے جھنڈے اور معروف مونوگرام گھر کے سامنے اور سڑکو ںپر لگائے؟ وہ ایک عام آدمی ہے‘ حکومت میں شامل ہے نہ حکومت کا نمائندہ ہے بلکہ محض اپنی ذات اور اپنے دکان کا نمائندہ ہے۔ جس اس سے بات کی گئی اور بتایا گیا کہ صلیب کے نشان والا جھنڈا لگانا شرعاً منع ہے۔ (یہ نشان اس قسم کا ہے جس طرح ’’ویسٹ اینڈ‘‘ نامی گھڑی پر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے (+)اس نے کہا’’ یہ تو اس طر ح کی لکڑیاں ہیں جس طرح بڑے ڈول کے منہ میں ہوتی ہیں اور یہ محض کمپنی کا نشان ہے۔ اس نے یہی وجہ بتائی۔اس نے مزید کہا’’ جب میں ان کے پاس گیا تو انوںنے سعودی عرب کا جھنڈا بھی لگایااور سوئٹرز لینڈ کا بھی۔ وہ اس طرح کی وجوہات بیان کرتا ہے اور وہ فرد ہے جو کسی (کمپنی یا ادارہ) کا نمائندہ نہیں۔ گزارش ہے کہ اس قسم کے کام کے متعلق فتویٰ ارشاد فرمائیں‘ کیا یہ بھی نصاریٰ کی تعظیم میں داخل ہے؟ کیا اس قسم کے موقعوں پر اس طرح کے جھنڈے وغیرہ لگائے جاسکتے ہیں؟ اگر وہ کہے کہ میں ان کا احترام نہیں کرتا تو کیا اس کی بات مانی جائے گی؟ اگر ہم اسے نصیحت نہ کریں تو کیا ہمیں گناہ ہوگا؟ اس قسم کے معاملہ میں برائی کو منع کرنے کے کیا درجات ہیں؟ براہ کرم فتویٰ ارشاد فرمادیجئے‘ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اور اپنی حفاظت میں رکھے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وہ صلیب جس کے متعلق ان کے مشہور غلط عقائد ہیں اور جو آج کل عیسائیوں کا مذہبی نشان ہے اس کی صورت یہ ہے کہ ایک لمبے خطے پر ایک چھوٹا خط کھینچا جائے کہ اوپر والا چھوٹا خط نیچے والے لمبے خط کو اوپر سے تقریباً ایک تہائی پر قطع کرے اور اس طرح خطوط کے ملنے سے قائمہ زاوئیے بنیں۔
برائی سے منع کرنے کے درجات جناب رسول اللہﷺ نے اس طرح بیان فرمائے ہیں:
(مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُّنْکِرًا فَلْیُغَّیرْه بِیَدِه، فَأِنْ لَّمْ یَسْتَطِعج فَبِلِسَانِه، فَأِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِه، وَذٰالِکَ أَضْعَفُ الْاِیْمَانِ) (صحیح مسلم)
’’تم میں سے جو شخص کوئی برائی کو دیکھے، اسے ہاتھ سے مٹادے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے (منع کرے)، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے (نفرت کرے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘
یہ حدیث امام مسلم رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’صحیح‘‘ میں روایت کی ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب