سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(573) دوسری جماعت کا حکم

  • 16797
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 889

سوال

(573) دوسری جماعت کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو لوگ جماعت سے پیچھے رہ جایئں اور مسجد میں آیئں اور دیکھیں کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں۔تو کیا وہ اسی مسجد میں دوسری جماعت کرواسکتے ہیں۔؟کیا اس حدیث کہ « من یتصدق علی ھذا» کون ہے جو اس پر صدقہ کرے؟'' او ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا کسی دوسرے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو یہ قول ہےکہ'' جب ہماری جماعت رہ جاتی تو ہم الگ الگ نماز پڑھتے''میں تعارض ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص مسجد میں آئے اور دیکھے کہ لوگ امام راتب یا غیر راتب کی اقتداء میں جماعت سے فارغ ہوچکے ہیں۔تو وہ ان لوگوں کے ساتھ شامل ہوکر جن کی جماعت رہ گئی ہے۔نماز باجماعت ادا کرلے یا ان میں سے کوئی اس پر صدقہ کرتے ہوئے اسے جماعت سے نماز پڑھاوے جو پہلے اپنی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرچکے ہوں۔کیونکہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو تن تنہا نماز پڑھتے ہوئے دیکھا توفرمایا:

«الا رجل يتصدق علي هذا فيصلي معه» (سنن ابی داؤد)

''کیا کوئی ہے جو اس شخص پر صدقہ کرے اور اسے نماز جماعت کے ساتھ پڑھا دے۔''

تو ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے اسے نماز پڑھا دی ترمذی نے بھی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی اس وقت آیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاچکے تھے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«ايكم يتجر علي هذا»(سنن ترمذی)

''کون ہے جو اس سے تجارت کرے''

ایک آمی کھڑا ہوا اور اس نے اسے جماعت سے نماز پڑھا دی امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے روایت کیا اور صحیح قرار دیا ہے۔اور امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آپ کی موافقت کی ہے۔امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ''المحلی'' میں اسے زکر کرکے اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ'' کئی ایک صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ کا یہی قول ہے۔کہ اس مسجد میں دوباہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں'جس میں پہلے جماعت ہوچکی ہو''امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے۔

کچھ دوسرے لوگوں کا قول یہ ہے کہ ان لوگوں کونماز الگ الگ پڑھنی چاہیے چنانچہ سفیان رحمۃ اللہ علیہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ مالکرحمۃ اللہ علیہ اور اامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول یہی ہے۔ کہ ان لوگوں کو نماز الگ الگ پڑھنی چاہیے۔ اور انکے ہم نوا لوگوں نے دوسری جماعت کو اس لئے مکروہ قرار دیا ہے۔ کہ اس سے افتراق و انتشار پیدا ہوگا خواہش نفس کے پجاری جماعت سے پیچھے رہ جانے کا اسے ایک زریعہ بنالیں گے۔ اور اس طرح دوسری نماز اس اامام کی امقتداء میں ادا کریں گے۔جو ان کی جماعت اور ان کی بدعت میں ان کی موافقت کرے گا لیکن مذکورہ بالا حدیث کے پیش نظر ان میں سے پہلا قو ل ہی صحیح ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم... ﴿١٦﴾... سورة التغابن

"سو جہا ں تک ہو سکے تم اللہ سے ڈرو۔"

كے عموم کابھی یہی تقاضا ہے۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کہ:

«اذ امرتكم بامر فائتوا منه مااستطعتم »(صحیح مسلم)

'' جب تمھیں کوئی حکم دوں تو مقدور بھر اس کی اطاعت بجا لاؤ''

کے عموم کا تقاضا بھی یہی ہے بلا شک وشبہ نماز باجماعت ادا کرنا ہی تقویٰ ہے۔اور شریعت نے اس کا حکم دیا ہے۔لہذا مقدور بھر کوشش کے ساتھ اسے ادا کرنا چاہیے اور یہ بھی صحیح نہیں کہ صحیح احادیث کے معارضہ میں اہل علم کی ان بیان کردہ علل کو پیش کیا جائے۔ جن کی وجہ سے انہوں نے مسجد میں دوسری جماعت کو مکروہ قرار دیا ہے۔ بلکہ اس کے مطابق عمل کرنا واجب ہے۔ جس پر صحیح نقول دلالت کنا ں ہوں۔ اور اگر کسی شخص یا کسی جماعت کے بارے میں یہ بات معلوم ہو جائے کہ وہ نماز باجماعت کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے وہ دانستہ پیچھے رہتے ہیں۔اور ان سے بار بار اس بات کاصدور ہواہے۔ یا ان کے طرز عمل اور ان کی جماعت کی روش سے یہ ظاہر ہو کہ وہ محض اس لئے جماعت سے پیچھے رہتے ہیں۔ تاکہ اپنے ہم نوا لوگوں کے ساتھ نماز ادا کریں۔توانھیں تعزیری سزا دی جائے گی۔ اور اس بات سے انھیں روکا جائے گا۔ مسلمان حاکم انہیں اور ان جیسے اپنی خواہش کے پجاریوں کو چاہے مناسب سزا دے سکتاہے۔اور اس طرح انتشار وخلفشار اور خواہشات کے پجاریوں کی غرض کا سد باب کیا جاسکتا ہے۔لہذا ان دلائل کو ترک کرنے کی ضرورت نہیں جس سے ان لوگوں کے لئے دوسری جماعت کے جواز کا ثبوت ملتا ہے۔ جو پہلی جماعت سے محروم ہوگئے ہوں۔(فتویٰ کمیٹی)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 458

محدث فتویٰ

تبصرے