سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(330)عسائیوں سے میل جول کے حوالے سے تفصیلات

  • 16796
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1125

سوال

(330)عسائیوں سے میل جول کے حوالے سے تفصیلات

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم لوگ آسٹریلیا میں رہتے ہیں او ریہ ملک سیکولر او رلادینی ہونے کا مدعی ہے۔ یہاں ہر مذہب والوں کو کسی بھی قسم کا عقیدہ رکھنے کی آزادی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کے ذرائع ابلاغ ینی ریڈیو اور ٹی وی پر عیسائیوں اور یہودیوں کا تسلط ہے۔ کوئی بھی شخص اگر غور کرے تو یہ چیز واضح طو رپر نظر آئے گی۔ یہاں مسلمانو ںکی تعداد کل آبادی کا بتیسواں حصہ (۲۳؍۱) ہے۔ ہم مسلمانو ںکو بسا اوقات ان کے مراکز اور عبادت گاہوں میں جانا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی کسی غیر مسلم دوست یا افسر کے جنازہ میں بھی جانا پڑتا ہے کیونکہ ڈیوٹی کے حالات اور ذمہ داریوں کا تقاضا ہوتا ہے۔ بسا اوقات کوئی غیر مسلم ہمارے گھر آتا ہے اور ہمارے ساتھ کھانا کھانے میں شریک ہوجاتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات تو وہ یہ خواہش ظاہر کرتے ہیں کہ وہ مسجد کے اندر سے گھوم پھر کر دیکھنا چاہتے ہیں۔ (ظاہر ہے کہ وہ اسلامی آداب کا لحاظ کرتے ہوئے مسجد میں آئیں گے۔ مثلاً جوتے اتار کرداخل ہوں گے اور عورتیں سر ڈھانپ کر آئیں گی) لہٰذا ارشاد فرمائیے کہ مندرجہ ذیل امور میں شرعی طور پر کیا حکم ہے؟

(۱)       ہمارا ان کے گھرو ںمی داخل ہونا۔

(۲)       ہمارا ان کے مذہبی کاموں میں حاضر ہونا۔

(۳)      تجارت وغیرہ کے معاملات میں ان کے ساتھ شریک ہونا۔

(۴)      ان کا ہمارے گھروں میں داخل ہونا۔

(۵)      ان کا ہماری عبادت گاہوں میں داخل ہونا۔

(۶)       کیا وہ ہماری مسجدوں میں تقریر کرسکتے ہی؟

(۷)      کیا وہ ہماری تقریبات میں مسجد سے باہر لیکچر ہال میں تقریر کرسکتے ہی؟

(۸)      کیا یہ جائز ہے کہ ہم یہودونصاریٰ کے ساتھ ایک عام اجتماع میں شریک ہوں جسے حکومت آسٹریلیا یا حکومت کاکوئی ادارہ منعقد کرتاہے اور کوئی ایک خاص موضوع متعین کیا جاتا ہے جس پر ہر مقرر اپنے مذہب کی روشنی میں تقریر کرتا ہے۔ مثلاً ’’مذاہب میں امن وسلامتی‘‘ ’’مذاہب میں رحمت کا تصور‘‘ اور م’’مذاہب میں عبادت کا مطلب‘‘ وغیرہ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

۱)         آپ تالیف قلب کیلئے‘ وعظ نصیحت کے لئے اور دوسرے دینی مصالح کے پیش نظر ان کے گھروں میں جاسکتے ہیں۔ محبت اور ولاء کے جذبات کے تحت نہیں جاسکتے۔

(۲)       ان کے مذہبی رسم ورواج میں شریک ہونا جائز نہیں‘ کیونکہ اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم انہیں صحیح سمجھتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہی‘ اس کے علاوہ اس سے ان کی مذہبی تقریبات کی رونق بڑھتی ہے‘ جو درست نہیں۔

(۳)      جائز تجارتی معاملات میں ان کے ساتھ شریک ہوناجائز ہے جب کہ مسلمان کو خطرہ نہ ہو کہ وہ ان کے ناجائز تجارتی معاملات میں شریک ہوجائے گا‘ مثلا سود‘ جو اور بیع غرر اور دھوکا فریب وغیرہ۔ لیکن تجارت میں ان کے ساتھ شریک ہونے سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔ کیونکہ اس طرح ہم شکوک وشبہات او رحرام کے ارتکاب کے خطرہ سے محفوظ رہیں گے۔

(۴)      ہم انہیں اپنے گھروں میں آنے کی اجازت دے سکتے ہیں‘ بشرطیکہ فتنہ کا احتمال نہ اور اہل خانہ کی عزت وآبرو کو کوئی خطرہ نہ ہو اور یہ اس وقت جائز ہے جب انہیں وعظ ونصیحت کرنا اور انہیں اسلام کی طرف راغب کرنا مقصود ہو۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے حسن سلوک اور ملاقات کے آداب کی پابندی کے مظاہر کو دیکھ کر اسلام کی وسعت ظرفی سے متاثر ہوں اور اسلام قبول کرلیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٨﴾ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٩﴾...الممتحنة

’’جن لوگو ںنے تم سے دین کی بنیاد پر جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھر وں سے نکالا‘ اللہ تعالیٰ تمہیں ان کیساتھ نیکی اور انصاف (کا سلوک) کرنے سے نہیں روکتا۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں کے ساتھ محبت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں صرف ان لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جنہو ں نے تم سے دین کی بنیاد پر جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے پر (نکالنے والوں سے) تعاون کیا۔ جو ان سے دوستی کریں گے وہی (لوگ) ظالم ہیں۔‘‘

(۵)      وہ مسجد حرام میں داخل ہوسکتے ہیں نہ حرم مکہ کی حدود میں داخل ہوسکتے ہیں‘ مسلمانوں کے لئے جائز نہیں کہ انہیں وہاں آنے دیں۔ اس کے علاوہ جو مقامات عبادت کیلئے بنائے گئے ہیں‘ وہاں وہ وعظ اور اسلامی لیکچر سننے کے لے آسکتے ہیں‘ شائد اللہ تعالیٰ ان کے دل میں ہماری محبت پید فرمادے اور ان کے دل نرم ہوجائیں (اور انہیں توبہ کی توفق مل جائے) اور اللہ ان کی توبہ قبول فرمالے۔ اللہ تعالیٰ یقینا مغفرت کرنے والا مہربان ہے۔

(۶)       انہیں مسلمانو ںکی مسجدوں میں تقریر کرنے یا لیکچر دینے کی اجاز ت نہیں دینی چاہئے‘ کیونکہ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ وہ (عوام کے ذہنوں میں اسلام کے متعلق) شکوک وشبہات پیدا کریں گے اور اللہ کے دین کو غلط رنگ میں پیش کریں گے یا حاضری کی نظر میں ان کامقام بن جائے گا جس کی وجہ سے بہت سے فتنے پیش آسکتے ہیں اور بڑی خرابی پیدا ہوسکتی ہے۔ انہی اسباب کی بنا پر خاص مسلمانو ںکے جلسوں اور اجتماعات میں ان کی تقریر یا لیکچر کا بھی یہی حکم ہے۔

(۷۔۸)  حکومت نے عوام کے جو اجتماع کے جو مقامات بنائے ہیں اور وہ مناظرات یا علمی مجالس اور مذہبی معاملات پر تقریر کرنے کے لئے ان کاانتظام کرتی ہے‘ ان مقامات میں ہم غیر مسلموں کے ساتھ جمع ہوسکتے ہیں‘ بشرطیکہ جو مسلمان عالم ان اجتماعات میں شریک ہو وہ اسلام کے عقائد‘ ارکان اور آداب بیان کرے اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد اسلام کے متعلق جو شبہات پیش کریں وہ (عالم) ان کا جواب دے اور وہ (لوگ) جن تقریروں میں اسلام کو غلط رنگ میں پیش کریں‘ ان کی تردید کرے اور اس کے علاوہ حق کی تائید اور دفاع کے لئے مناسب اقدامات کرے۔ لیکن جو مسلمان دین سے ناواقف ہے یا ان نے مناسب تیاری نہیں کی یا ا سکی فکری سطح اتنی بلند نہیں یا دین کے متعلق ناکافی معلومات رکھتاہے‘ اسے اس قسم کے اجتماعات میں شریک نہیں ہونا چاہئے۔تاکہ وہ فتنوں سے محفوظ رہے اور دین کے متعلق شکوک وشبہات کا شکا رنہ ہوجائے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے