السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ذمی کے ساتھ تعلقات رکھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ ہم ان کے ساتھ معمول کے تعلقات رکھ سکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک مسلمان کے ذمی کے ساتھ تعلقات رکھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کے بارے میں جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں انہیں پورا کیا جائے۔ اس کی دلیل متعدد آیات واحادیث ہیں جن میں سے اہل ذمہ سے کیا ہوا عہد پورا کرنے اور ان سے عدل وانصاف سے مبنی رویہ رکھنے کا حکم ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٨﴾ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٩﴾...الممتحنة
’’جن لوگو ںنے تم سے دین کی بنیاد پر جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھر وں سے نکالا‘ اللہ تعالیٰ تمہیں ان کیساتھ نیکی اور انصاف (کا سلوک) کرنے سے نہیں روکتا۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں کے ساتھ محبت رکھتا ہے۔‘‘
عام حالات میں ذمی کے ساتھ نرمی اوراحسان کرنا چاہئے۔ صرف ان کامو ںسے پرہیز کرنا چاہئے جن سے شریعت نے منع کیا ہے‘ مثلاً اسے سلام کہنے میں پہل نہ کی جائے‘ اس سے مسلمان عورت کا نکاح نہ کیاجائے۔ مسلمان کے ترکہ میں سے اسے حصہ نہ دیا جائے اور اس طرح کے دوسرے امور جن کے بارے میں صراحت سے ممانعت وارد ہے‘ ان سے پرہیز کیا جائے۔ تفصیل کے لئے علامہ ابن قیم الجوزیہ' کی کتاب ’’احکام اھل الذمة‘‘ اور دوسرے علماء کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب