ہمارے شہر میں ''امر بالمعروف او نہی عن لمنکر'' کے محکمہ کے سربراہ نے یہ حکم دیا ہے کہ بینک کا ہر ملازم نماز ظہر قریبی مسجد میں باجماعت ادا کرے۔جب کہ بینک کے مدیر کی یہ رائے ہے کہ بینک کے تمام ملاذمین کو بینک کے اندر نماز باجماعت نماز ادا کرنی چاہیے ۔آ پ کا اس بارے میں کیا فتویٰ ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی فعلی سنت یہ ہے کہ نماز کو مسجد میں باجماعت ادا کیا جائے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے گھروں کو آگ سے جلادینے کا ارادہ فرمایا'جومسجدوں میں نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کےلئے نہیں آتے۔حضرات خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور تابعین کا بھی یہی معمول تھا کہ وہ نماز کو مسجدوں میں جماعت کے ساتھ اد ا فرماتے تھے۔صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
''جو شخص اذان کی آواز سنے اور پھر مسجد میں نہ آئے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی الا یہ کوئی(شرعی) عذر ہو۔''
اسی طرح یہ بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ ایک (نابینا) آدمی نے عرض کیا:
''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا کوئی معاون نہیں جو مجھے مسجد میں لاسکے تو کیا میرے لئے رخصت ہے کہ میں گھر میں نماز ادا کرلو؟''تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا''کیا تم نماز کے لئے اذان سنتے ہو؟''اس نے عرض کیا''جی ہاں''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا'تو اس پر لبیک کہو۔''
ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'' نہیں میں تمہارے لئے کوئی رخصت نہیں پاتا۔''
ان احادیث مبارکہ سے واضح ہواکہ بینک کے ملازمین کو چاہیے کہ وہ قریبی مسجد میں نماز باجماعت ادا کریں تاکہ سنت پر عمل ہو فرض کی ادائیگی ہو مسجدوں میں باجماعت نماز ا دا کرنے سے پیچھے رہ جانے والے کے لئے اختیار کئےجانے والے حیلوں بہانوں کا سدباب ہواور مفافقوں کی مشابہت سے اجتناب ہو۔وباللہ التوفیق(وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم) (فتویٰ کمیٹی)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب