السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(۱) مسئلہ یہ ہے کہ ’’جماعت غرباء اہل حدیث آف کراچی والے لوگ دو سجدوں کے درمیان میں انگلی اٹھاتے ہیں تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ درج ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں استدلال یا یہ فعل کس حد تک سنت اور صحیح ہے ؟
« عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنهما اَنَّ النَّبِیَّ کَانَ اِذَا جَلَسَ فِی الصَّلٰوةِ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلٰی رُکْبَتَيْهِ وَرَفَعَ اِصْبَعَهُ الْيُمْنٰی الَّتِیْ تَلِی الْابْهَامَ فَدَعَا بِهَا وَيَدهُ الْيُسْرٰی عَلٰی رُکْبَتِهِ الْيُسْرٰی بَاسِطَهَا عَلَيْهَا»رواه مسلم
’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے اور داہنے ہاتھ کے کلمہ کی انگلی کو اٹھاتے اس سے دعا کرتے اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر بچھا دیتے‘‘
(۲) عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْمُعَاوِیِّ اَنَّه قَالَ رَأٰنِی عَبْدُ اﷲِ بْنُ عُمَرَ وَاَنَآ اَعْبَثُ بِالْحَصٰی فِی الصَّلٰوةِ فَلَمَّا انْصَرَفَ نَهَانِیْ فَقَالَ اصْنَعْ کَمَا کَانَ رَسُوْلُ اﷲِﷺيَصْنَعُ قُلْتُ وَکَيْفَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِﷺيَصْنَعُ قَالَ کَانَ اِذَا جَلَسَ فِی الصَّلٰوةِ وَضَعَ کَفَّهُ الْيُمْنٰی عَلٰی فَخِذِهِ الْيُمْنٰی وَقَبَضَ اَصَابِعَه کُلَّهَ وَاَشَارَ بِاِصْبَعِهِ الَّتِیْ تَلِی الْاِبْهَامَ وَوَضَعَ کَفَّه الْيُسْرٰی عَلٰی فَخِذِهِ الْيُسْرٰی»رواه مسلم
’’علی بن عبدالرحمن معاوی سے روایت ہے کہ مجھ کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے دیکھا نماز میں کنکریوں سے کھیلتے ہوئے ۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو مجھ کو منع کیا اور کہا کہ ایسا کیا کر جیسے رسول اللہﷺ کرتے تھے میں نے کہا وہ کیسے کرتے تھے انہوں نے کہا کہ آپ جب نماز میں بیٹھتے تو دا ہنی ہتھیلی دائیں ران پر رکھتے اور سب انگلیوں کو بند کر لیتے اور اس انگلی سے اشارہ کرتے جو انگوٹھے کے پاس ہے (یعنی کلمہ کی انگلی سے) اور بائیں ہتھیلی بائیں ران پر رکھتے‘‘
نوٹ : ان دونوں حدیثوں میں لفظ ’’ اِذَا جَلَسَ فِی الصَّلٰوةِ‘‘ کا ہے کوئی اور الفاظ نہیں ہیں مثلاً اِذَا جَلَسَ فِی التَّشَهُّدِ وغیرہ اس لیے مطلق بات ہے جب نماز میں بیٹھے۔
(۳) وَضَعَ الْاِبْهَامَ عَلٰی الْوُسْطٰی وَقَبَضَ سَائِرَ اَصَابِعِه ثُمَّ سَجَدَ
’’رکھا آپ نے انگوٹھے کو وسطیٰ انگلی پر اور باقی تمام انگلیوں کو بند کیا پھر سجدہ کیا‘‘( رواہ احمد عن وائل ص ۳۱۷ ج۴ وبلوغ الامانی جزء ۳ ص ۱۴۹ وروی نحوہ ابوداود)
(۴) «عَنْ عبْدِ اﷲِ بْنِ الزُبَيْرِ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِﷺاِذَا قَعَدَ يَدْعُوْا وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنٰی عَلٰی فخِذِهِ الْيُمْنٰی وَيَدَهُ الْيُسْرٰی عَلٰی فَخِذِهِ الْيُسْرٰی وَاَشَارَ بِاصْبَعِهِ السَّبَابَةِ وَوَضَعَ اِبْهَامَه عَلٰی اِصْبَعِهِ الْوُسْطٰی وَيُلْقِمُ کَفَّهُ الْيُسْرٰی عَلٰی رُکْبَتِه»مسلم
’’عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب دعا کرنے کے لیے بیٹھتے تو داہنا ہاتھ داھنی ران پر رکھتے اوربایاں ہاتھ بائیں ران پر اور کلمہ کی انگلی سے اشارہ کرتے اور اپنا انگوٹھا بیچ کی انگلی پر رکھتے اور بائیں ہتھیلی کو بایاں گھٹنا دیتے‘‘
نوٹ : اس حدیث میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعا کے واسطے بیٹھتے نماز میں تو شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے اس لیے غور کرنا چاہیے جب ہم نماز میں دو سجدوں میں بیٹھتے ہیں تو اس وقت دعا بھی کی جاتی ہے اس لیے مندرجہ بالا احادیث کے مطابق دو سجدوں کے درمیان کیا عمل ہونا چاہیے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے جو احادیث مبارکہ نوٹ فرمائیں وہ صحیح ہیں اور ان سے آپ کا استدلال بھی درست ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب