سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(292)آپ کاحج اور عمرہ درست ہے

  • 16728
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 831

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گذشتہ سے پیوستہ سال میں نے فریضئہ حج ادا کرنے کا ارادہ کیا اور ’’حج قرآن‘‘ کی نیت کی۔ بیت اللہ شریف پہنچتے ہی میں نے عمرہ ادا کیا۔ چونکہ اس سے پہلے مجھے بیت اللہ شریف کی زیارت کا شرف حاصل نہیں ہواتھا اس لئے اسی طواف کو طواف قدم بھی سمجھا جاسکتاہے۔ اس سے ایک دن بعد میں نے اپنی والدہ مرحومہ کی طرف سے عمرہ ادا کیا۔ چونکہ منیٰ جانے کا وقت یعنی یوم الترویه ابھی دور تھا تو جن لوگوں کے ہاں میں ٹھہرا ہواتھا‘ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں احرام کھول دوں‘ میں نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد منیٰ جاتے وقت میں نے نئے سرے سے احرام باندھا۔ صرف حج کی نیت کرتے ہوئے مسجد عمرہ میں دورکعت نماز ادا کی۔ اس طرح میری نیت حج قرآن کے بجائے حج تمتع کی بن گئی۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کرنے سے میرے حج میں تو کوئی خرابی نہیں آئی‘ جب کہ میں نے جانور کی قربانی بھی دی ہے؟ اور میں نے حج کے موسم میں اپنی والدہ کی طرف سے جو عمرہ کیا ہے کیا وہ صحیح ہے یا ایک حج کے موسم میں دو عمرے کرنا جائز نہی؟ فریضئہ حج کی ادائیگی کے بعد انسان سے اگر کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو کیا اس سے حج پر کوئی اثر پڑتا ہے؟ اور ہم غلطی سے بہر حال پاک اور معصوم تو ہیں نہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱)         آپ کا حج‘ تمتع کی قسم ہے اور آپ نے عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول کر اچھا کیا۔

(۲)       آپ نے اپنی طرف سے عمرہ ادا کرنے کے بعد والدہ کی طرف سے جو عمرہ ادا کیا ہے وہ صحیح ہے۔ بشرطیکہ آپ نے اپنے عمرہ میں طواف اور سعی کے بعد سر کے بال اتروا کر یا چھوٹے کر کے احرام کھولنے کے بعد یہ دوسرا عمرہ کیا ہو۔

(۳)      کفر کے علاوہ کسی گناہ سے نیک اعمال ضائع نہیں ہوتے۔ اگر کسی نے نیکیاں بھی کی ہیں اور گناہ بھی‘ پھر اس نے توبہ نہیں کی تو قیامت کے دن ان سب کا حساب ہوگا الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے گناہ معاف فرمادے۔ البتہ ا سلام ترک کرکے نعوذ باللہ مرتد ہوجانا ایک ایسا گناہ ہے جس سے تمام نیک اعمال کالعدم ہوجاتے ہیں جب کہ کفر کی حالت میں موت آجائے اور جو شخص سچی توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ فضل ورحمت کرتے ہوئے اس کے اعمل کالعدم نہیں فرماتے۔ ارشاد ربانی تعالیٰ ہے:

﴿وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢١٧﴾...البقرة

’’تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے پھر کفر کی حالت ہی میں مرجائے تو یہی لوگ ہیں جن کے عمل دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگئے اوریہی لوگ جہنمی ہیں‘ وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔‘‘

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ