سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(539) انفرادی طور پر پڑھنے والے کو جہری قراءت کی ضرورت نہیں

  • 16724
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 1220

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں وتر کی تین رکعات پڑھتا اور آخری رکعت میں تشہد کے لئے بیٹھتا ہوں۔پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد کوئی چھوٹی سورۃ دوسری میں ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ﴾اورتیسری میں ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ﴾ اور (معوذتین) پڑھ لیتا ہوں۔کبھی کبھی وتر کی گیارہ رکعت پڑھتا ہوں اور آخری رکعت میں تشہد کے لئے بیٹھتا ہوں اور پہلی تین رکعات میں مذکورہ بالا سورتوں کو پڑھتا اور باقی رکعات میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتا ہوں کیا میری یہ نماز صحیح ہے اور اگر وتر کی تیرہ رکعات پڑھنا چاہوں تو کس طرح پڑھوں؟جب مغرب یا عشاء یاصبح کی نماز جماعت سے نہ پڑھ سکوں تو انفرادی طور پر پڑھ لیتا اور آیات کی قراءت سری طور پر کرتا ہوں لیکن میرے چچا جان نے مجھے بتایا ہے کہ جہری نمازوں میں انفرادی طور پر پڑھنے کی صورت میں بھی قراءت جہری کرنا واجب ہے تو کیا میری سابقہ نمازیں صحیح ہیں؟اس سلسلہ میں مجھ پر کوئی کفارہ وغیرہ تو لازم نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وتر کی تیرہ یا گیارہ رکعت کو اس طرح پڑھنا مستحب ہے۔ کہ آپ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیں اور فاتحہ کے بعد جن سورتوں کی چاہیں قراءت کرلیں نو رکعات پڑھنا بھی جائز ہے۔ کہ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیر دے یا آٹھ رکعت پر تشہد بیٹھیں اور پھر نویں رکعت پڑھ کر تشہد کریں اور سلام پھیر دیں۔ایک سلام کے ساتھ سات اور پانچ رکعات پڑھنا بھی جائز ہے۔مستحب یہ ہے کہ وتر کی رکعات تین سے کم نہ ہوںاور تیسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھی جائے اگر ان کے علاوہ دیگر سورتیں پڑھ لے تو پھر بھی کوئی حرج نہیں افضل یہ ہے کہ وتر کی تین رکعات دو سلام کے ساتھ پڑھی جایئں اور اگر ایک سلام کے ساتھ پڑھ لےتو پھر بھی(ان شاء اللہ) جائز ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ انفرادی طور پر نماز پڑھنے میں قراءت کے جہری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہری قراءت تو امام رات کی نمازوں میں اسی لئے کرتا ہے تاکہ مقتدیوں کو وہ اپنی قراءت سنا سکے اور مقتدیوں کو اس سے مستفید ہونے کا موقع ملے لیکن جو شخص انفرادی طور پر نماز پڑھتا ہے۔ وہ تو اپنے آپ کو سناتا ہی ہے خواہ قراءت سری کرے یا جہری اس سے مقصود حاصل ہوجاتا ہے۔شیخ ابن جبرینرحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 441

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ