السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
داڑھی رکھنانبیﷺ کی سنت ہے۔ بہت سے لوگ اس کے تارک ہیں۔ کوئی مونڈتا ہے‘ کوئی اس کے بال اکھیڑ دیتا ہے‘ کوئی کاٹ کر چھوٹی کرلیتا ہے‘ کوئی سرے سے اس کا منکر ہے۔ کوئی کہتا ہے ’’ یہ سنت ہے اگر رکھی جائے تو ثواب ہے نہ رکھی جائے تو گناہ نہیں۔‘‘ بعض بے وقوف تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ اگر داڑھی اچھی چیز ہوتی تو زیر ناف نہ اگتی۔ (اللہ ان کورسوا کرے) ان مختلف افراد کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟ اور جو شخص نبی کریمﷺ کی کسی سنت کا منکر ہو‘ اسکا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جناب رسول اللہﷺ کی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ داڑھی کو لمبا ہونے دینا اور بڑھانا واجب ہے اور اسے مونڈنایا کاٹنا حرام ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا:
(قُصُّوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَی خَالِفُو الْمُشْرِکِینَ) (متفق عليه صحیح بخاري‘ کتاب اللباس‘ ب:۲۴/ ح: ۵۸۹۲‘ صحیح مسلم ح: ۲۵۹)
’’مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔ مشرکین کی مخالف کرو۔‘‘
صحیح مسلم اور میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے نبی کریمﷺنے فرمایا:
(جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَرْخوا اللِّحَی، خَالِفُو الْمَجُوْسَ) (صحیح مسلم ح: ۲۶۰۔)
’’مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ‘ مجوسیوں کی مخالفت کرو‘‘
ان دونوں حدیثوں سے اور اس مفہوم کی اس اور بہت سی حدیثوں میں آتا ہے کہ داڑھی رکھنا اور اسے بڑھانا واجب او راسے مونڈنا او رکاٹنا حرام ہے جیساکہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ داڑھی رکھنا ایسی سنت ہے جس پر عمل کرنے سے ثواب ہوتا ہے اور ترک کرنے سے گناہ نہیں ہوتا تو وہ غلطی پر ہے اور صحیح حدیثوں کی مخالفت کررہا ہے۔ کیونکہ امر (حکم) کا اصل معنی وجوب ہی ہے اور نہی (ممانعت) سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ صحیح حدیث کے ظاہر مفہوم کو ترک کرنا جائز نہیں الا یہ کہ کوئی ایسی دلیل مل جائے جس سے معلوم ہوکہ اس مقام پر ظاہری معنی مراد نہیں اور مذکورہ بالاحدیثوں کے ظاہری معنی (وجوب) کو ترک کرنے (اور استحباب مراد لینے) کی کوئی دلیل موجود نہیں ۔
جامع ترمذی میں جو حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ داڑھی کے طول اور عرض میں سے کچھ کم کر دیا کرتے تھے۔ وہ حدیث باطل ہے کیونکہ یہ رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں۔ مذکورہ بالا روایت میں ایک راوی ’’مہتم بالکذب‘‘ ہے یعنی وہ جھوٹ بولا کر تا تھا۔ جو شخص داڑھی کا مذاق اڑاتا اور اسے زیر ناف کے بالو ں سے تشبیہ دیتا ہے وہ بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کررہا ہے جس کی وجہ سے وہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید یا صحیح حدیث سے ثابت ہونے والے کسی حکم کا مذاق اڑانا کفروارتداد کا موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ...٦٦﴾...التوبة
’’کیا تم اللہ تعالیٰ سے‘ اس کی آیتوں سے اور اس کے رسول سے مذاق کرتے ہو؟ معذرت نہ کرو۔ تم ایمان لانے کے بعد پھر کافر ہوگئے ہو‘‘۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب