سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(526) نماز مغرب سے پہلے نفل

  • 16694
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 885

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اذان مغرب کے بعد اور نماز سے پہلے ۔۔۔جب کہ اذان اوراقامت کے درمیان وقت بہت کم ہوتا ہے۔۔۔تحیۃ المسجد اور نفل پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
نمبر 2۔جو شخص نماز فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک مسجد میں رہے کیا اس کے لئے طلوع آفتاب کے وقت ضحیٰ کی دو رکعات پڑھنا جائز ہے۔؟نیز یہ فرمایئے کہ نماز ضحیٰ کا مسنون وقت کونسا ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تحیۃ المسجد سنت موکدہ ہے۔جسے تمام اوقات حتیٰ کہ ممانعت کے اوقات میں بھی علماء کے صحیح قول کے مطابق ادا کیاجاسکتا ہے۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے عموم کا یہی تقاضا ہے کہ:

«اذا دخل احدكم المسجد فلايجلس حتي يصلي ركعتين» (صحيح البخاری)

 ‘‘تم میں سے کوئی جب بھی مسجد میں آئےتووہ دورکعتیں پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔’’(متفق علیہ)

اذان مغرب کے بعد اور اقامت سے پہلے نماز سنت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

«"‏ صلوا صلاة المغرب ‏"‏‏.‏"‏ صلوا صلاة المغرب ‏"‏‏.‏ ـ قال في الثالثة ـ لمن شاء» (صحیح بخاری)

''مغرب سے پہلے نماز پڑھو ۔مغرب سے پہلے نماز پڑھو اور تیسری بار آپ نے فرمایا کہ جو چاہے وہ پڑھے۔''

حضرات صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کا معمول یہ تھا۔کہ جب اذان مغرب ہوجاتی۔تو وہ اقامت سے پہلے جلدی سے دو رکعات پڑھ لیتے تھے'نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں دیکھتے اور منع نہ فرماتے بلکہ آپ نے تو اس کا حکم بھی دیا ہے جیسا کہ مذکورہ بالاحدیث سے ثابت ہے۔

جواب نمبر 2۔ضحیٰ کا وقت اس وقت شروع ہوتا ہے جب سورج ایک نیزے کے برابر بلند ہوجائے اور اس وقت تک رہتا ہے جب سورج ظہر سے پہلے کھڑا ہوجائے۔(یعنی نصف النہار کے وقت جب ابھی زوال شروع نہیں ہوا ہوتا) اور افضل وقت وہ ہے جب دھوپ گرم ہوجائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:

«صلاة الاوابين حين ترمض الفصال»(صحيح مسلم)
''اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والوں کی نماز اس وقت ہوتی ہے۔جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلتے ہیں۔''(شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 432

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ